کہیں دیپ جلے کہیں دل

290

یہ ویسے تو ایک گانے کے بول ہیں لیکن پچھلے دنوں عمران خان صاحب جب کراچی آئے تو کراچی والوں کو یہ امید ہوئی کہ وہ کے الیکٹرک سے کراچی کے عوام کو کچھ ریلیف دلوائیں گے لیکن انہوں نے کے الیکٹرک کی حمایت میں فیصلہ کرکے کراچی کے ڈھائی کروڑ عوام کے دل جلا دیے اسی لیے کے الیکٹرک کے اندر تو خوشیوں کے دیپ جلائے جارہے ہیں اور ڈھائی کروڑ عوام کے دل جل رہے ہیں اور جلے ہوئے دل کے ساتھ اگر کوئی بددعا دی جائے تو وہ آہ خالی نہیں جاتی۔ کراچی کے لیے بجلی کے فی یونٹ پر پیسے بڑھائے جارہے ہیں اس کو کم کرنا چاہیے تھا نہ کہ یہ ہوا کہ پیسے تو پورے ہی بڑھائے جائیں گے لیکن اسے تین قسطوں میں ادا کرنا ہوگا اس میں عمران خان صاحب کا کیا کمال ہوا انہوں نے عوام کا مسئلہ حل کرنے کے بجائے کے الیکٹرک کا مسئلہ حل کیا کہ اضافے کی قسطیں کرکے عوام کے احتجاج کی شدت کو کم کرنے کی کوشش کی ہے۔ عمران خان صاحب کو سوچنا چاہیے کہ ڈھائی کروڑ عوام میں سے کسی ایک کی بددعا لگ گئی تو کیا ہوگا۔
بددعا پر مجھے ایک پرانا واقعہ یاد آگیا، کراچی میں ایک میچ ہورہا تھا اپنے آئیڈیل بالر سے ملنے کے لیے ایک دس بارہ سال کا نوجوان دوڑتا ہوا میدان میں آیا اور اپنے ہیرو کو گلاب کا پھول دینا چاہا وہ بچہ اپنے ہیرو سے ہاتھ ملانے میں کامیاب ہو گیا لیکن اس ہیرو نے بچے کو پہلے تو برا بھلا کہا پھر اس کا ہاتھ پکڑ کر زمین پر گرا دیا اور اس کے پیٹ پر اپنا پیر رکھ دیا اور ایک ہاتھ سے اس کے ہاتھ کو بھی کھینچتا رہا اس زمانے میں الیکٹرونک میڈیا تو تھا نہیں صرف سرکاری ٹی وی چینل ہوتے تھے دوسرے دن یہ تصویر ملک کے تمام اخبارات میں نمایاں طور پر شائع ہوئی اور صرف ملکی ہی نہیں تمام انٹرنیشنل اخبارات میں بڑے اہتما م سے شائع ہوئی اور اس پر یورپی صحافیوں کے تبصرے بھی شامل تھے، اس تصویر کے شائع ہوتے ہی پورے ملک میں اس بالر کے خلاف نفرت کی ایک لہر چل گئی کہ ایک بچہ اپنی محبت میں اپنے ہیرو سے ملنے گیا وہاں اس کو اذیت ناک کیفیت سے گزرنا پڑا اگر آج وہ تصویر دوبارہ شائع ہو تو ایسا معلوم ہوگا کہ ایک فلسطینی بچے کو اس کے مخالف مذہب کا آدمی اس طرح دبوچ کر اپنے انتقام کی آگ کو ٹھنڈا کررہا ہے۔ پھر کیا ہوا۔۔۔ پھر یہ ہوا کے وہ مایہ ناز بالر ہاتھ کے ایسے درد میں مبتلا ہوا کہ دنیا کے بڑے سے بڑے ڈاکٹر اس کے درد کو کم نہ کرسکے اور وہ تین سال کے لیے کرکٹ کی دنیا سے غائب ہوگیا۔ اس کا کیرئیر ختم ہونے کے قریب تھا کہ استغفار کام آئی اور وہ دوبارہ کرکٹ کی فیلڈ میں واپس آگیا۔ میں تصور میں اس فوٹو کو رکھتے ہوئے محسوس کررہا ہوں کہ زمین پر گرا ہوا بچہ کراچی کے ڈھائی کروڑ عوام ہیں اور جو فرد اس کے سینے پر اپنا پیر رکھے ہوئے ہے وہ ہمارے وزیر اعظم کا دوست اور کے الیکٹرک کا ذمے دارعارف نقوی ہے جو کہہ رہا ہے کہ تمہیں پورے پیسے دینے ہوں گے کوئی معافی نہیں ملے گی۔
ایک اور اہم مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے وزیر اعظم کہتے ہیں میں چوروں کو نہیں چھوڑوں گا۔ اداروں اور دفاتر سے کرپشن کے ثبوت حاصل کرنا بالکل ایسے ہی ہے جیسے کہ بحر الکاہل میں سوئی ڈھونڈنا اسی لیے نیب اپنے اختیار کو استعمال کرکے اداروں سے لوگوں کو گرفتار تو کرلیتی ہے لیکن ان کے خلاف ان کو دفاتر سے کوئی ثبوت نہیں ملتے اور وہ صاف بچ جاتے ہیں لیکن کراچی میں ایک چوری ایسی بھی ہوئی ہے جس کے ہزاروں عینی شاہدین مل جائیںگے۔ وزیر اعظم صاحب ایک دن سندھ ہائی کورٹس کے سینئر ججوں کے ساتھ بیٹھ جائیں اور یہ اعلان کریں کے جن لوگوں نے تانبے کے تار چوری ہوتے ہوئے دیکھا وہ آکر تمام سینئر ججوں کے سامنے گواہی دیں انہیں کچھ نہیں کہا جائے گا آپ دیکھیے اس دن ہزاروں افراد آئیں گے اور یہ گواہی دیں گے کہ انہوں نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ کے الیکٹرک کے لوگ تانبے کے تار نکال رہے ہیں اور اس کی جگہ سلور کے تار لگا رہے ہیں ایک اندازے کے مطابق ان تاروں کی مالیت چار سے پانچ ارب کے درمیان ہے لیکن اگر ہم اس کی مالیت تین ارب روپے بھی طے کرلیں تو کراچی کے عوام کے پیسے ہیں جو انہیں واپس ملنے چاہییںصرف جماعت اسلامی ہے جس نے اس مسئلے کو اٹھایا ہے عمران خان صاحب جماعت اسلامی کے سیاسی پارٹنر بھی رہے ہیں وہ اگر جماعت اسلامی کی یہ بات مان لیں اور کراچی کے عوام کو ان لوٹی ہوئی رقم واپس دلادیں تو یہ کراچی کے عوام پر ان کا بہت بڑا حسان ہوگا اور تمام اہل کراچی کے گھروں میں دل جلنے کے بجائے خوشیوں کے دیپ جل جائیں گے۔ اور وزیراعظم کے مخالفین کے اس پروپیگنڈے کا زور بھی ٹوٹ جائے گا کہ وزیر اعظم کے الیکشن مہم کے 75فی صد اخراجات عارف نقوی سے برداشت کیے تھے۔