اداروں کی تباہی… مسئلہ نیت کا ہے

299

عدالت عظمیٰ کے چیف جسٹس نے ریمارکس دیے ہیں کہ کیوں نہ این ڈی ایم اے کو ختم کرنے اور چیئرمین کو ہٹانے کا حکم یا توہین عدالت کا نوٹس دیا جائے۔ صرف ایک روز قبل عدالت عظمیٰ نے قومی احتساب بیورو (نیب) کے بارے میں بھی اسی قسم کے تبصرے کیے تھے بلکہ خواجہ برادران کے کیس کے تفصیلی فیصلے میں تو عدالت نے کہہ دیا کہ نیب متنازع ہے، کیوں نہ اسے ختم کیا جائے۔ دو اہم اداروں پر تو عدالت عظمیٰ نے اعتراض یا تبصرہ کرتے ہوئے مکمل عدم اعتماد کا اظہار کیا ہے۔ کابینہ، وزرا اور اسمبلی پر وزیراعظم اور ان کے سلیکٹرز نے عدم اعتماد کا اظہار کیا ہے۔ فیصلے دہری شہریت والے مشیر اور معاونین خصوصی کر رہے ہیں یا خفیہ ہاتھ۔ کابینہ، اسمبلی یا پارلیمنٹ کو کچھ پتا نہین اور پتا بھی ہو تو ان میں کون سی ایسی صلاحیت ہے کہ وہ معاملات کو سمجھ سکیں اور فیصلے کر سکیں۔ شاید انہیں اسی مقسد کے لیے سلیکٹ کیا گیا تھا کہ فیصلے تو کسی اور کو کرنے ہیں۔ انہیں تو صرف گنتی پوری کرنے کے لیے پارلیمنٹ میں بٹھایا گیا ہے۔ اب خبر ہے کہ حکومت ایف اے ٹی ایف کے لیے سپر نیب قانون لانا چاہتی ہے ابھی تو نیب ہی متنازع ہے اب سپر نیب قانون بنانے کی کیا ضرورت ہے۔ اس مقصد کے لیے وفاقی کابینہ نے انسداد دہشت گردی ایکٹ ضابطہ فوجداری اور انسداد منی لانڈرنگ قوانین میں تبدیلی کی منظوری دے دی ہے۔ کابینہ میں کوئی ایک فرد بھی شاید ایسا نہ ہو جو ان قوانین کی الف ب بھی جانتا ہو لیکن چونکہ فیصلہ کسی اور نے کہیں اور کیا ہے اس لیے کابینہ نے صرف منظوری دے دی ہے۔ مسترد تو کر نہیں سکتی اسے یہی کام کرنے کے لیے بنایا گیا ہے۔ وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات شبلی فراز کا کہنا ہے کہ پیپلز پارٹی اور ن لیگ نے ریاستی اداروں کو زمین بوس کردیا۔ ان کی اطلاع بالکل درست ہے لیکن جناب شبلی فراز کااپنی پارٹی کے بارے میں کیا خیال ہے جس میں قومی اداروں کو زمین بوس کرنے والی پارٹیوں کے لوگ ہی تو ہیں۔ اور آپ کی پارٹی کیا کر رہی ہے۔ ایک قانون کی موجودگی میں اس پر درست اور ایماندارانہ عملدرآمد کیا جائے تو قوانین خود بتائیں گے کہ انہیں تبدیلی کی ضرورت نہیں ہو بلکہ لوگ اور معاشرہ اس کے نتیجے میں تبدیل ہوں گے۔ اصل مسئلہ نیتوں کا ہے۔ احتساب ایکٹ ختم کر کے نیب بنایا گیا اب سپر نیب قوانین لائے جا رہے ہیں۔ اگر چیف جسٹس کے تبصروں کو دیکھا جائے تو ان تین میں سے ایک کام ہو جانا چاہیے۔ این ڈی ایم اے ختم، چیئرمین کو ہٹایا جائے یا توہین عدالت کا نوٹس دیا جائے۔ لیکن اب تک ایسا ہونے کی اطلاع نہیں ملی۔ عدالت نے استفسار کیا ہے کہ ایک ہی کمپنی کو سارا سامان منگوانے کی اجازت کیسے ملی۔ چین میں قیمت اور پاکستان میں ڈیوٹیز نقد کیسے دے دی گئیں۔ این ڈی ایم اے کے بارے میں یہ شکایت تو پہلے ہی سامنے آچکی تھی کہ ایک ہی کمپنی سے معاہدہ کیا جا رہا ہے۔ عدالت نے اتنا تو سمجھ لیا ہے کہ ضرور کوئی گڑبڑ ہے۔ اب یہ گڑبڑ کیسے سامنے لائی جائے گی یہ کام عدالت کا ہے۔ عدالت کا تبصرہ ہے کہ کسی کو پیسہ نہیں کھانے دیں گے۔ لیکن یہ حکمران پیسہ چھوڑ کہاں رہے ہیں کہ کوئی کھائے۔ خزانے میں پیسہ نہیں، کاروبار نہیں ہے، برآمدات نہیں، ٹیکس نہیں تو پیسہ کہاں ہے۔ اداروں کو پیپلز پارٹی اور ن لیگ نے تباہ کیا لیکن موجودہ حکومت کیا کر رہی ہے کون سے ادارے کو سلامت رہنے دیا گیا ہے۔ جب بدنیتی اور انتقامی جذبے سے قوانین اور اداروں کو استعمال کیا جائے گا تو نتائج یہی ہوں گے۔ عدالت کا یہ عزم تو اچھا ہے کہ کسی کو پیسہ نہیں کھانے دیں گے لیکن پتا نہیں کیا وجہ ہے کہ عدالت کے عزائم اور اعلانات پر عمل نہیں ہوتا۔ بلکہ عدالتوں کے معاملات بھی درست نہیں ہیں۔ شبلی فراز یہ بھی بتائیں کہ عدالتوں کے نظام کو کس نے تباہ کیا۔ عدالت عظمیٰ بھی اس پر روشنی ڈالے کہ عدالتی نظام کیوں تباہ ہو رہا ہے۔