عزت مآب عادل اعظم گلزار احمد کا فرمان ہے کہ بینچ اور بار میں کوئی اختلاف نہیں دنوں ایک پیج پر ہیں۔ بجا فرمایا کہ اختلاف کی گنجائش ہی نہیں یوں بھی عدالت عظمیٰ کا ہر بیان قانون کی درجہ رکھتا ہے۔ مگر یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ بینچ اور بار کی ہم خیالی ہم آہنگی اور آپس کے تعاون سے عوام کو کیا ملا۔۔۔؟ بینچ اور بار نے اس ضمن میں کون سے اقدام اٹھائے؟ کیا یہ حقیقت نہیں کہ بینچ اور بار کی ملی بھگت سے آئے دن عوام کے جنازے اٹھائے جاتے ہیں، نسل در نسل مقدمات کی سماعت اور بے گناہوں کو سزا موت سنانا سیشن کورٹ اور ہائی کورٹ کا معمول ہے۔ اور عدات عظمیٰ ان فیصلوں پر حیرت اور افسوس کا اظہار کرتے ہوئے ملزمان کی باعزت بری کردیتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ عدالتوں نے جب ملزمان کے تیس پینتیس سال برباد کردیے اس کا ازالہ کون کرے گا۔ کیونکہ بار اور بینچ اس معاملے میں ایک پیج پر ہیں۔
سوال یہ بھی کہ عدالتیں احتساب کی عمل سے آزاد کیوں ہیں اس پس منظر میں تو یہی کہا جاسکتا ہے کہ بار اور بینچ نے اس معاملے میں خاموش تماشائی بنے رہنے کا معاہدہ کیا ہے۔ جج اور جسٹس صاحبان ملزمان کے ساتھ جو چاہیں سلوک کریں کوئی نہیں پوچھے گا۔ اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا ہے کہ قوم عدالتوں سے مایوس ہوچکی ہے۔ ایک خاتون کو جج صاحب نے بریت کا پروانہ دیا تو اس نے کہا اللہ تجھے تھانیدا بنا دے جج نے صاحب نے کہا اماں جی میں تھانے دار سے بہت بڑا ہوں کیوں بد دعا دے رہی ہو۔ خاتون نے کہا جج صاحب جو فیصلہ آپ نے 32سال کے بعد دیا ہے تھانے دار نے کہا تھا ماں جی چائے پانی کا کوئی بندوبست کرو، معاملہ ادھر ہی ختم کردوں گا۔ کہاں بڑھاپے میں عدالتوں میں دھکے کھاتی پھرو گی، میری مت ماری گئی تھی اگر میں اس بات مان لیتی تو 32سال تک عدالتوں میں دھکے نہ کھاتی۔ دیانت داری سے سوچا جائے تو قصور وار جج ہیں نہ جسٹس ساری کوتاہی نظام عدل کی ہے۔ جج اور جسٹس صاحبان کی میز پر سو ڈیڑھ سو فائلیں رکھ دی جائیں تو سماعت کیوں کر ممکن ہے صرف پیشیاں ہی دی جاسکتیں ہیں۔
ہمارے ایک قاری کو شکوہ ہے کہ ہم خواہ مخواہ عدالتوں کے پیچھے پڑے رہتے ہیں میں ایک جج کا ریڈر ہوں روزانہ سو ڈیڑھ سو فائلیں اس کی میز پر ڈالی جاتی ہیں۔ اور ستم بالا ے ستم یہ کہ پنجاب عدلیہ میں ایک ہزار سے زائد جج کی آسامیاں خالی ہیں ہم نے کہا کہ شاید آپ کالم غور سے نہیں پڑتے ہم نے ہمیشہ نظام عدل کی بات کی ہے۔ ہمارے نظام عدل ایسے خطوط پر استوار کیا گیا ہے جو بھول بھلیوں کی مانند ہے۔ جو بھی عدالت میں گیا بھول بھلیوں میں کھو گیا وکلا جج صاحباں اپنے ذاتی مفادات اور تحفظات کے حصول کے لیے آئے دن ہڑتالیں کرتے رہتے ہیں گویا اس معاملے بار اور بینچ ایک ہی پیج پر ہوتے ہیں۔ مگر عوام کے مسائل کے حل کے لیے ان کے پاس وقت ہی نہیں بعض وکلا پیش نہیں ہوتے اور جج صاحب عدم پیروی کی بنیاد پر مقدمہ خارج کردیتے ہیں اور وکلا صاحب دوبارہ فیس لے کر مقدمہ اوپن کروا دیتے ہیں کیا یہی بار اور بینچ کا اتفاق رائے ہے۔ اگر بینچ اور بار اچھے تعلقات کا دائرہ کاربڑھا کر سائلین کے مسائل پر غور فرمائیں تو قوم ان کی ممنون ہوگی۔ کئی ماہ سے کورونا وائرس کے خوف سے عدالتیں مقدمات کی سماعت نہیں کررہی ہیں اگر بار اور بینچ کو عوام کی مشکلات کا احساس ہوتا تو وہ ایسے تمام مقدمات جنہیں سول کورٹ سیشن کورٹ اور ہائی کورٹ عدم ثبوت کی بنا پر خارج کرچکی ہے ان میں سے بہت سے مقدمات تو عدالت عظمیٰ کی دہلیز تک جاپہنچے ہیں سوال یہ ہے جن مقدمات کو عدم ثبوت کی بنیاد پر خارج کیا گیا ہے ان کی اپلیں کیوں قابل سماعت قرار دی جاتی ہیں کیا یہ بہتر نہ ہوتا کہ ایسا تمام مقدمات پر نظر ثانی کرکے سائلین کو ذہنی اذیت سے نجات دلائی جاتی مگر بار اور بینچ کو عوام کی مشکلات اور ان کے مسائل سے کوئی دلچسپی ہی نہیں سارے دنیا میں کسی مقدمے کا فیصلہ سنانے کا وقت مقرر ہوتا ہے مگر ہمارے ہاں پیشی در پیشی کا کھیل کھیلا جاتا ہے جو ایک انتہائی مکروہ اور شرمناک فعل ہے۔ مروجہ نظام عدل میں کئی کئی نسلیں مقدمہ لڑتے لڑتے موت کی آغوش میں چلی جاتی ہیں مگر مقدمہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتا، اس پس منظر میں یہ کہنا توہین عدالت نہیں ہوگاکہ بار اور بینچ کا اتفاق رائے عوام کے لیے فرعون کا عذاب بن گیا ہے۔