کلبھوشن پر مہربانیاں… عافیہ کہاں ہے؟

623

ایسے حالات میں پاکستانی قوم کو عافیہ کیوں نہ یاد آئے۔ فرض کر لیں ڈاکٹر عافیہ صدیقی پر میڈیا کے ذریعے اور امریکی کینگروکورٹ میں لگائے گئے تمام الزامات درست تھے۔ مقدمہ بھی قانون کے مطابق تھا جج برمن بھی متعصب نہیں بڑا منصف مزاج آدمی تھا، ڈاکٹر عافیہ کے خلاف جو کچھ کہا گیا اس نے وہ سب کچھ کیا تھا اس لیے اسے سزا ہوگئی لیکن اب تو اس کی رہائی کے لیے حکومت پاکستان کے سامنے ایک جواز پیدا ہو گیا ہے۔ ابھی اس بات سے بحث نہیں کہ ڈاکٹر عافیہ کو کراچی سے اغوا کرکے بگرام کیسے پہنچایا گیا۔ بگرام کے مبینہ واقعے پر امریکا میں مقدمہ کیسے چلا، مقدمے میں اس کے خلاف الزامات بھی ثابت نہیں ہوئے لیکن اسے 86 برس کی سزا سنا دی گئی۔ بلکہ زیر بحث یہ موضوع ہے کہ کئی برس سے پاکستانی قوم کو یہ کہانی سنائی جا رہی تھی کہ پاکستان نے بھارتی جاسوس پکڑ لیا ہے اس جاسوس نے درجنوں مواقع پر اپنے جاسوسی اقدامات کا برملا اعتراف کیا اسے 2016ء میں مارچ میں گرفتار کیا گیا تھا۔ تقریباً سوا چار سال سے قوم کو یہی بتایا جا رہا تھا۔ 2017ء میں 10 اپریل کو اسے کورٹ مارشل کے ذریعے سزائے موت سنائی گئی لیکن ایک دفعہ بھی اس جاسوس سے ہمدردی کا رویہ ظاہر نہیں کیا گیا۔ یہ سابق وزیراعظم نواز شریف کا دور تھا جب کلبھوشن کو گرفتار کیا گیا لیکن پھر بھی وہ مودی کا یار تھا۔ نواز شریف نے مودی سے یاری نبھانے کی بھی بہت کوششیں کی تھیں۔ لیکن اب تو حد ہو گئی ہے۔ ایسا لگ رہا ہے کہ کلبھوشن یادو جاسوس نہیں سفارتکار ہے۔ کسی ایسے جاسوس کے ساتھ یہ وی آئی پی رویہ سمجھ سے بالاتر ہے کہ اسے ایک نہیں دو نہیں تین تین مرتبہ قونصلر رسائی دی جائے۔ جو برملا اعتراف کر چکا ہو کہ اس نے پاکستان میں دہشت گردی کے لیے نیٹ ورک بنایا۔ بلوچستان میں دہشت گردی میں بھارت کے ملوث ہونے کا اعتراف کیا ہو۔ اب اسی کلبھوشن کو قانونی مدد دینے کے لیے اسلام آباد ہائیکورٹ سے رجوع کیا گیا ہے۔ اس مقصد کے لیے حکومت پاکستان نے کلبھوشن کو وکیل فراہم کرنے کے لیے صدارتی آردیننس کی مدد لی ہے۔ یہ وہی خفیہ آرڈیننس ہے جس کا ذکر بلاول زرداری نے کیا تھا۔ بتایا یہی جا رہا ہے کہ یہ کیا عالمی عدالت انصاف کے فیصلے کی روشنی میں کیا جا رہا ہے۔ ممکن ہے ایسا ہی ہو لیکن سوال پھر اٹھتا ہے کہ عالمی عدالت انصاف، ویانا کنونشن، انسانی حقوق کے قوانین صرف بھارتی جاسوسوں کے لیے ہیں۔ کسی پاکستانی کو ان قوانین سے فائدہ کیوں نہیں ہوتا۔ پاکستانی قوم کی بیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے اغوا سے لے کر مقدمے اور سزا تک سب کچھ غیر قانونی تھا کسی پاکستانی حکمران کی غیرت نہیں جاگی کہ اس مسئلے کے لیے آواز اٹھاتا۔ آواز تو کیا ان حکمرانوں کو معلومات بھی ٹھیک سے نہیں ہیں۔ بھارتی جاسوس نے سزا کے خلاف درخواست دائر کرنے سے انکار کردیا۔ بھارتی سفارتکار کلبھوشن سے بات کیے بغیر بھاگ نکلے۔ اس کے بعد پاکستان کو کیا بے چینی ہے؟ بھارتی حکومت اور عالمی عدالت کو تو نوٹس لینے دیتے۔ پاکستانی قوم یہ سوال پوچھنے میں حق بجانب ہے کہ پاکستان کے کسی حکمران نے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے معاملے میں سنجیدگی کا مظاہرہ کیوں نہیں کیا۔ سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی تو ڈاکٹر عافیہ کی والدہ پر احسان رکھ رہے تھے کہ وہ امریکی شہری ہے پھر بھی ہم نے اس کو وکیل فراہم کیا۔ جب ان کو بتایا گیا کہ عافیہ پاکستانی ہے تو ذرا بھی شرمندہ نہیں ہوئے اور پھر کہنے لگے کہ 20 لاکھ ڈالر وکیل پر خرچ ہوئے ہیں۔ شاید کلبھوشن کو ایسا ہی وکیل دینے کی تیاری ہو تو اچھا ہے۔ کیونکہ اس پاکستانی وکیل کی وکالت کے بعد عافیہ کو 86 برس کی سزا سنا دی گئی تھی۔ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو سزا تو ہوگئی وقت گزرتا جا رہا ہے اسے امریکی قید میں چھ ہزار تین سو پچیس دن گزر چکے ہیں۔ ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کے مواقع ہمارے حکمرانوں نے خود ضائع کیے ہیں۔ اس معاملے میں جنرل پرویز مشرف اور ان کے بعد آنے والے تمام حکمران اور سب سے آگے بڑھ چڑھ کر دعوے کرنے والے وزیراعظم عمران خان سب برابر ہیں۔ ایک وقت تو ایسا آیا تھا کہ کسی ویانا کنونشن کسی عدالت کسی وکیل کی ضرورت نہیں تھی صرف پاکستانی صدر، وزیراعظم یا وزیر خارجہ امریکی صدر کو ایک خط لکھ دیتا تو عافیہ صدیقی پاکستان میں ہوتی لیکن… اس لیکن کا مطلب واضح ہے کے مودی کی یاری میں کون کس سے آگے ہے اس کا مقابلہ جاری ہے۔ توقع ہے کہ اس میں بھی چیمپئن ہی آگے ہوگا۔ 15 اگست کے اقدام پر خاموشی، بابری مسجد کے فیصلے پر خاموشی، کشمیر کی حیثیت تبدیل کرنے پر خاموشی، کرتارپور راہداری کھول دی۔ ایران نے بھارت کو چاہ بہار سے نکالا تو پاکستانی حکومت نے اس کے لیے واہگہ بارڈر کھول دیا تاکہ بھارتی جاسوس تجارتی سرگرمیوں کی آڑ میں کلبھوشن نیٹ ورک کو مستحکم کریں اور اس کے بنائے ہوئے منصوبوں کو عملی جامہ پہنا سکیں۔ کلبھوشن جاسوس ہے اس کے ساتھ سفارتکاروں والا سلوک ہو رہا ہے۔ بنگلا دیش میں جعلی مقدمات کے نتیجے میں درجنوں لوگوں کو قتل کر دیا گیا۔ ہمارے حکمران اسے بنگلا دیش کا اندرونی معاملہ قرار دیتے رہے۔ بھارت کشمیر سمیت پورے ملک میں مسلمانوں کا قتل عام کر رہا ہے۔ دہلی میں تو حال ہی میں قتل عام ہوا ہے اس پر بھی اس ملک کے جاسوس کے لیے آنکھیں بچھانا کیا معنی رکھتا ہے۔ پھر ہماری عدالت شکوہ کرتی ہے کہ فوج، عدلیہ اور حکومت کے خلاف سوشل میڈیا کے ذریعے لوگوں کو اکسایا جا رہا ہے۔ بات بالکل درست ہے لیکن اس کا موقع کون دے رہا ہے۔