پولیس کی لاقانونیت

331

اسلام آباد میں ایک صحافی مطیع اللہ جان کا پولیس وردی میں ملبوس افراد کے ہاتھوں اغوا اور رہائی کا معاملہ چل ہی رہا ہے اور پولیس اس واردات سے انکاری ہے۔ لیکن کراچی میں تو ایک عرصے سے پولیس کے ہاتھوں شہریوں کے اغوا کا سلسلہ چل رہا ہے۔ ایسے اغوا کو ’’شارٹ ٹرم کڈنیپنگ‘‘ یا مختصر مدت کے لیے اغوا کا نام دیا گیا ہے۔ اس میں ہوتا یہ ہے کہ باوردی پولیس اہلکار پولیس کی یا کسی پرائیویٹ گاڑی میں لوگوں کو اٹھا لیتے ہیں اور ادھر ادھر گھمانے کے دوران میں سودے بازی کرتے ہیں۔ رقم مل جانے پر کہیں چھوڑ دیتے ہیں۔ جسارت کے رپورٹر کے مطابق کراچی میں ایک بار پھر ایسی وارداتیں زور پکڑ گئی ہیں۔ گزشتہ منگل کو ایسی ہی ایک واردات لائنز ایریا میں ہوئی جس میں مغوی کی اہلیہ کے مطابق رات کو جب گھر والے سو رہے تھے تو پولیس موبائل میں سوار مسلح افراد، جن میں سے ایک پولیس کی وردی میں تھا، گھر میں گھس کر ان کے شوہر شہزاد قریشی کو اٹھا کر لے گئے اور روکنے پر پولیس نے ان خاتون کے ساتھ بدتمیزی بھی کی۔ اہلیہ نے اس کی اطلاع فوری طور پر 15 پر دی اور شوہر کے اغوا کی درخواست متعلقہ تھانے میں دی تو پولیس نے درخواست لینے ہی سے انکار کر دیا۔ تاحال مغوی کا کوئی پتا نہیں چلا۔ علاقے کی پولیس کے علم میں ضرور ہوگا کہ یہ واردات کس نے کی ہے۔ اگر پولیس ہی لوگوں کو اغوا کرنے لگے تو لاقانونیت کو کون روکے گا؟ صحافی مطیع اللہ جان کے اغوا کے بارے میں تو یہ ظاہر ہے کہ یہ کام پولیس کا نہیں کسی اور کا تھا۔ عدالت عظمیٰ نے انتباہ کیا ہے کہ کسی ادارے کو قانون سے کھلواڑ نہیں کرنے دیں گے۔ آئین ہر شخص کو تمام بنیادی حقوق فراہم کرتا ہے۔ عدالت عظمیٰ کا فرمان اپنی جگہ لیکن پاکستان میں کچھ ادارے ایسے ہیں جن کو قانون اور آئین کی کوئی پروا نہیں، ان کا اپنا ہی قانون ہے۔ ایک واردات قنبر میں ہوئی ہے جہاں مبینہ طور پر رشوت نہ ملنے پر پولیس نے نوجوان کو قتل کر دیا اور لاش سول اسپتال میں پھینک دی۔ تھانیدار سمیت 7 اہلکاروں پر قتل کا مقدمہ درج ہوگیا لیکن کیا سزا بھی ملے گی؟