شین وطن شاداب وطن

347

تنظیم اساتذہ خیبر پختون خوا نے اپنے ایک حالیہ فیصلے میں تنظیم سے منسلک اپنے تمام ارکان وکارکنان اور معاونین کو ہدایت کی ہے کہ وہ حالیہ مون سون کے موسم میں اپنے اپنے اسکولوں، گھروں اور ارد گرد کے علاقوں میں زیادہ سے زیادہ پھل دار اور سایہ دار درخت لگائیں۔ تنظیم اساتذہ نے اس مہم کو شین وطن شاداب وطن کا عنوان دیا ہے جس کے معنی سرسبز وترو تازہ وطن کے ہیں یعنی اس مہم کا مقصد زیادہ سے زیادہ پودے لگا کر وطن عزیز کو سرسبز وشاداب بنانا ہے۔ تنظیم اساتذہ نے یہ فیصلہ ایک ایسے موقع پر کیا ہے جب پوری دنیا کو بالعموم اور پاکستان جیسے ترقی پزیر ملک کو بالخصوص ماحولیاتی آلودگی اور موسمیاتی تغیرکا سامنا ہے۔ ہمارے ہاں کارخانوں سے اٹھنے والا مضر صحت دھواں، گاڑیوں کا بے ہنگم شور شرابہ، بارشوں کی کمی، چہار سو اڑتی ہوئی دھول اور سب سے بڑھ کر کہیں سڑکوں کو چوڑا کرنے، کہیں نت نئی عمارتوں کی تعمیر، کہیں نئی ہائوسنگ اسکیموں کی بھرمار اور کہیں کارخانوں اور پلازوںکی تعمیر اور توسیع کے نام پر درختوں کی مسلسل بے دردی سے کٹائی کا جو سلسلہ جاری ہے اس سے ماحولیاتی آلودگی میں اضافے کی رہی سہی کسر بھی پوری ہو رہی ہے۔ اس طرز عمل سے ہمارے وہ علاقے بھی دشت وبیاں باں کا منظر پیش کرنے لگے ہیں جو کبھی اپنی شادابی اور درختوں کے گھنے سایوں کے لیے مشہور ہوا کرتے تھے۔ پشاور جو کبھی پھولوں اور باغات کا شہر کہلاتا تھا اب اس کا شمار دنیا بھر کے آلودہ ترین اور گندگی کے ڈھیروں کے لیے مشہور شہروں میں ہوتا ہے۔ پشاور شہر جو چاروں اطراف سے دیہات اور مواضعات میں گھرا ہوا ہے اس لیے ماضی میں شہر اور قریب کے ان دیہی علاقوں کے درمیان اپنائیت اور قربت کا ایک مضبوط اور پرخلوص رشتہ قائم تھا۔ پشاور کے گرد ونواح کے بیسیوں دیہات کے باسی اپنی ضروریات زندگی کے لیے شہر کا رخ کرتے تھے جس کے لیے ماضی میں تانگے اور بیل گاڑیاں استعمال ہوتے تھے پھر آہستہ آہستہ ان کی جگہ بسوں اور پک اپ، سوزوکیوں، رکشوں اور موٹر کاروں نے لے لی۔ ذرائع آمد ورفت کی ان نئی سہولتوں نے اگر ایک طرف مسافتوں کو گھٹا دیا ہے تو دوسری جانب یہ جدت اپنے ساتھ ہماری بہت ساری درخشندہ روایات کے ساتھ ساتھ پھلوں اور پھولوں کے باغات بھی بہا کر لے گئی۔ پشاور کے مضافاتی دیہات میں ہر طرح کی سبزیوں اور اناج کی کاشت کے ساتھ ساتھ پھولوں اور پھلوں کے گھنے اور وسیع وعریض باغات بھی ہوا کرتے تھے لیکن اب یہ باغات قصۂ پارینہ بن چکے ہیں اور جو تھوڑے بہت رہ گئے ہیں انہیں بھی ہائوسنگ کی غیر منظم اور بے ہنگم اسکیموں کے ذریعے ختم کیا جارہا ہے۔ یہ باغات زیادہ تر آلوچے، آڑو اور خوبانی پر مشتمل ہوا کرتے تھے لیکن آ ج ان کے نام ونشان بھی مٹ چکے ہیں۔ موٹر وے پر پشاور کی حدود میں داخل ہونے پر اب بھی ہمیں ایسے سائن بورڈز پڑھنے کو ملتے ہیں جن پر یہ خوشنما جملے لکھے ہوتے ہیں کہ یہ علاقے آڑو کے باغات کے لیے مشہور ہیں حالانکہ ہمیں موٹر وے کے ارد گرد ان باغات کا نام ونشان تک نظر نہیں آتا۔
بہرحال اپنے اصل موضوع کی طرف لوٹتے ہوئے میں یہ کہنا چاہوں گا کہ تنظیم اساتذہ نے شین وطن شاداب وطن کے نام سے شجر کاری کی جس مہم کا آغا زکیا ہے اس پر تنظیم کے ساتھ ساتھ اس کے صوبائی صدر اور اساتذہ کرام کے حقوق ومسائل کے لیے دن رات ایک کرنے والے ماسٹر خیر اللہ حواری مبارک باد کے مستحق ہیں جنہوں نے درست سمت میں ایک مثبت قدم اٹھایا ہے۔
یہاں اس امر کی نشاندہی بھی خالی از دلچسپی نہیں ہوگی کہ ماہرین کے مطابق کسی بھی ملک کی اجتماعی ترقی اور بہترین ماحول کے لیے اس ملک کے کل رقبے کا 20 تا 25فی صد رقبہ جنگلات پر مشتمل ہونا چاہیے جب کہ پاکستان میں یہ شرح بمشکل چار سے پانچ فی صد ہے جس سے پاکستان میں جنگلات ا ور جنگلی حیات کو درپیش مشکلات اور چیلنجزکا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ یہ بجا ہے کہ موجودہ حکومت نے اس چیلنج کا ادراک کرتے ہوئے پورے ملک اور خاص کر خیبر پختون خوا میں بلین ٹری سونامی مہم کے ذریعے بڑے پیمانے پر شجر کاری کا آغاز تو خوب زور وشور سے کیا تھا لیکن زمینی حقائق ان نعروں اور دعوئوں کے برعکس ہیں۔ پچھلے دنوں ایک معاصر میں جنگلات کی بے دریغ کٹائی اور اس ضمن میں متعلقہ اداروں کی بے حسی پر مبنی رپورٹ اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ وہ ادارے جن کا کام جنگلات اور جنگلی حیات کا تحفظ ہے وہی ادارے اس کو نقصان پہنچانے کا باعث بن رہے ہیں۔ حکومت نے کروڑوں اور اربوں روپے خرچ کرکے بلین ٹری سونامی مہم کو جس بڑے پیمانے پر سیاست اور کرپشن کے الزامات کی نذر کیا ہے اس سے بھی اچھے مقاصد کے تحت شروع کی گئی شجرکاری کی اس مہم کو نقصان پہنچا ہے۔ حرف آخر یہ کہ ہمیں اس حقیقت کو تسلیم کر لینا چاہیے کہ شجرکاری جسے صدقہ جاریہ کہا گیا ہے اور جس کی اسلامی تعلیمات میں بہت فضائل بیان کیے گئے ہیں کو صرف حکومت کے رحم وکرم پر نہیں چھوڑنا چاہیے بلکہ اس کار خیر جس کا آغاز اساتذہ کی ایک ملک گیر اور منظم تنظیم نے اپنا اخلاقی اور سماجی فرض سمجھ کر کیا ہے توقع ہے کہ اسی طرح معاشرے کے دیگر طبقات ا ور تنظیمیں حتیٰ کہ سیاسی جماعتیں اور ان کے لاکھوں کارکنان نیز ہماری نوجوان نسل بھی از خود اس کارخیر میں اپنے حصے کا کردار ادا کرنے میں کسی بخل سے کام نہیں لیں گے اور اس ذمے داری کو اپنا اخلاقی فرض سمجھ کر ادا کرنے کی کوشش کریں گے۔