آخری تنکا

348

ترقی یافتہ اور مہذب ممالک میں تمام حکومتی ادارے ایک پیج پر ہوتے ہیں کہ جمہوریت سے فیض یاب ہونے کا اس سے بہتر کوئی اور راستہ نہیں، مگر ہمارے ہاں جب دو ادارے ایک پیج پر ہوتے ہیں تو یہ ایک بڑی خبر بن جاتی ہے۔ اور حکومت کی کامیابی کی دلیل سمجھی جاتی ہے۔ مگر المیہ یہ ہے کہ حکومت اور فوج ایک پیج پر ہوں تو کندھے عوام کے چھلتے ہیں۔ بار اور بنچ ایک پیج پر ہوں تو عوام انصاف کی دہائی دیتے دیتے اللہ کی عدالت میں پیش ہوجاتے ہیں۔ پہلے عوام حکومت کے ظلم و ستم سے تنگ آ کر فوج کی طرف دیکھتے تھے مگر اب فوج اور حکومت دونوں ہی عوام کو حکمرانی کا ذریعہ سمجھتے ہیں یوں محکومیت عوام کا مقدر بن گئی ہے۔
حکومت نے حالیہ بجٹ میں سرکاری ملازمین کو ٹھینگا دکھا دیا۔ ستم بالائے ستم یہ کہ مہنگائی اور بے روزگاری کے سونامی میں عوام کو ڈبو دیا۔ مگر کوئی ادارہ عوام کو تحفظ دینے پر آمادہ نہیں کیونکہ حکومت، بیوروکریسی اور ارکان اسمبلی کی تنخواہوں میں بجٹ سے پہلے ہی کئی گنا اضافہ کر چکی ہے۔ دنیا کے کسی ملک میں ایزی لوڈ اور ٹی وی فیس نہیں لی جاتی مگر پاکستان ایسی اندھیر نگری ہے کہ یہاں حکومت جو چاہے کرے کوئی پوچھنے والا نہیں۔ عدلیہ جو ازخود نوٹس لینے میں پوری دنیا میں شہرت رکھتی ہے وہ بھی ایسے معاملات میں خاموشی کے بکل میں دبک جاتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ عوام کس سے فریاد کریں کس سے انصاف طلب کریں۔ ٹی وی فیس جبراً وصول کی جاتی ہے۔ پہلے 35روپے وصول کیے جاتے تھے اب 100روپے لیے جائیں گے۔ حالانکہ پی ٹی وی تو کوئی دیکھتا ہی نہیں پھر فیس کیوں وصول کی جاتی ہے۔ بھارت میں عبادت گاہوں سے یوٹیلٹی بل وصول نہیں کیے جاتے۔ شاید اسی لیے عرب ممالک بھارت کو عزت کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ مگر ہمارے حکمرانوں کو عزت سے زیادہ دولت عزیز ہے۔ ان دنوں ہماری پوسٹنگ ایک سرحدی علاقے میں تھی پہلے ہر ماہ فیس وصول کرنے کے لیے کلرک بادشاہ آیا کرتا تھا۔ سرحدی علاقوں میں پی ٹی وی کی نشریات دکھائی نہیں دیتی تھی۔ وہاں پر بھارتی ٹی وی کی نشریات بہت واضح اور صاف دکھائی دیتی تھیں۔ جب کلرک بادشاہ ٹی وی فیس وصول کرنے آیا تو کہا گیا کہ یہاں پر پی ٹی وی کی نشریات ہی نہیں آتیں پھر فیس کیوں دی جائے۔ معاملہ عدالت تک جا پہنچا جج صاحب نے پہلی ہی پیشی پر مقدمہ خارج کردیا اور کہا کہ پی ٹی وی کی نشریات ہی نہیں آتیں اس لیے فیس نہیں لی جاسکتی۔ چونکہ جج صاحب کی رہائش وہیں پر تھی اور وہ صورتحال سے اچھی طرح واقف تھے۔ وزیر اعظم عمران خان بھی اس حقیقت سے آگاہ ہیں۔ اور خود بھی اس خیال کا اظہار کرچکے ہیں کہ وہ پاکستانی ٹی وی نہیں دیکھتے۔ عمران خان اس حقیقت پر غور کیوں نہیں کرتے کہ حالیہ بجٹ میں تنخواہوں میں اضافہ ہوا نہ ہی پنشن بڑھائی گئی۔ بس مہنگائی میں اضافہ کیا جارہا ہے۔ اور ہر وہ طریقہ اپنایا جارہا ہے جو عوام کو ذہنی اذیت میں مبتلا کرنے کا باعث بنے مگر عوام کب تک یہ ظلم برادشت کرتے رہیں گے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ ٹی وی فیس میں اضافہ عوام کو بغاوت پر مجبو کردے۔ اگر یہ فیصلہ اونٹ کی کمر پر آخری تنکا ثابت ہوا تو وہ دن تحریک انصاف کا آخری دن ہوگا۔
ٹی وی اینکرز کہتے ہیں کہ اپوزیشن میں اتنا دم ہی نہیں کہ وہ شیخ رشید کے دم کا توڑ کرسکیں مگر یہ ان کی خام خیالی ہے۔ اس معاملے میں یہ خیال بھی قابل غور ہے کہ اگر پی ٹی وی خسارے میں جا رہا ہے تو اس کی نجکاری کیوں نہیں کی جاتی۔ اسے ٹھیکے پر کیوں نہیں دیا جاتا، سنا ہے عمران خان کے مشیر پاکستان کو ٹھیکے پر دینے کا مشورہ دے رہے ہیں کہ ادارے کو ٹھیکے پر دینے کی نسبت یہ زیادہ آسان کام ہے۔ سوال یہ ہے کہ عوام اس خسارے کو کیوں برادشت کریں۔ یوں بھی پی ٹی وی حکومت کا ترجمان ہے حکومتی پالیسوں اور اس کی کارگزاری سے عوام کی سماعت کو مجروح کرتا رہتا ہے۔ حکومت اپنے شان میں قصیدے لکھوانے اپنی خارجہ اور داخلہ پالیسی پر زمین آسمان کے قلابے ملانے والوں کے منہ موتیوں سے بھرتی رہتی ہے۔ پاکستان میں بے شمار ٹی وی چینل کام کررہے ہیں۔ اور سیکڑوں خاندانوں کا ذریعہ معاش بنے ہوئے ہیں۔ تو پھر پی ٹی وی خسارے میں کیوں جارہا ہے۔ المیہ یہی ہے کہ جہاں کمیٹی یا کمیشن بنانے کی ضرورت ہوتی ہے وہاں حکومت ایسے اداروں کی پشت پناہی شروع کردیتی ہے۔