دین کا مذاق اڑانے والے حکمران

471

اسلامی جمہوریہ پاکستان میں دین کا مذاق اڑانے والوں کی کمی نہیں ہے لیکن اتفاقاً آجکل وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی فواد چودھری کی شامت آئی ہوئی ہے۔ رمضان المبارک اور عیدین کے چاند پر وہ زیادہ اچھل کود مچاتے ہیں۔ محرم کے چاند پر وہ خود بادلوں میں چھپ جاتے ہیں۔ ان کی سائنس اور ٹیکنالوجی بھی خاموش رہتی ہے۔ لیکن فی الحال پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار مرکزی رویت ہلال کمیٹی کے سربراہ مفتی منیب الرحمن نے براہ راست کسی سیاسی شخصیت کا نام لے کر تنقید کی ہے۔ انہوں نے تو بڑی رعایت کی ہے اپنے منصب و مقام کا بھی خیال رکھا ہے ورنہ فواد چودھری تو اس سے زیادہ کے مستحق ہیں۔ مفتی صاحب نے پھر توجہ دلائی ہے کہ نبیؐ نے صاف الفاظ میں فرمایا کہ چاند کی 29 تاریخ کو مطلع ابر آلود ہو اور چاند نظر نہ آئے تو قمری مہینہ 30 کا پورا کر لو۔ انہوں نے سوال اٹھایا ہے کہ فواد چودھری یہ تو بتائیں کہ فلکیات کی کون سی کتاب میں لکھا ہے کہ قمری تاریخ کا تعین چاند کا سائز دیکھ کر کیا جائے۔ یہ فواد چودھری کی جہالت ہے کہ وہ خود کو سائنس کا امام سمجھتے ہیں۔ مفتی منیب الرحمن نے رویت ہلال کا مسئلہ ایک مرتبہ پھر تفصیل سے بیان کر دیا۔ کم ازکم میڈیا کے ذریعے فواد چودھری اور ان جیسے لوگوں کی باتوں سے عوام تو گمراہ نہ ہوں۔ ایک مرتبہ پھر یہ تحریر کیا جا رہا ہے تاکہ لوگوں کی یادداشت میں پختہ ہو جائے۔ انہوں نے بتایا ہے کہ ’’اگر قمری مہینے کی 29 تاریخ کو چاند غروب آفتاب کے بعد کچھ دیر کے لیے سائنسی اعتبار سے مطلع پر موجود بھی ہو وہ قابل رویت نہیں ہے اور مہینہ 30 کا قرار پائے گا۔ اگلی شام تک اس کی عمر 24 گھنٹے بڑھ جائے گی لہٰذا وہ مطلع پر نسبتاً زیادہ دیر رہے گا اور اس کا سائز بھی نسبتاً بڑا ہو گا لیکن وہ پہلی تاریخ ہی کا چاند ہوگا۔یہی بات اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین قبلہ ایاز نے بہت واضح طور پر کہی تھی کہ چاند کا فیصلہ رویت کے اعتبار سے کیا جاتا ہے۔ لیکن فواد چودھری سمجھ کر بھی نہیں سمجھتے۔ مفتی منیب الرحمن کو ایسی باتوں کا جواب بھی نہیں دینا چاہیے تھا کیونکہ ایسے لوگوں کو عوام کی غالب اکثریت سنجیدہ لوگوں میں شمار نہیں کرتی۔ معاملہ اس سے زیادہ سنگین ہے صرف رویت ہلال کا معاملہ نہیں ہے پورے ملک کے حکمران دین کا مذاق اڑا رہے ہیں۔ سود کو قرآن اللہ اور رسول سے جنگ قرار دیتا ہے۔ حدیث میں اس قدر شدید وعید موجود ہے کہ الامان۔ لیکن نواز شریف سے لے کر آج تک سارے حکمران سود کے حق میں عدالت میں کھڑے ہیں۔ شراب کسی مذہب نے جائز قرار نہیں دی لیکن پاکستان میں اس کی کھلے عام فروخت پر پابندی مشکل ہے۔ عدالتیں بھی کھل کر ایک مرتبہ فیصلہ نہیں دیتیں اور کبھی دوسرے مذاہب کا بہانہ بنایا جاتا ہے۔ اب دین کا مذاق لاہور ہائی کورٹ نے بھی اڑایا ہے۔ عدالت نے شراب کی فروخت کے خلاف درخواست ناقابل سماعت قرار دے دی۔ درخواست گزار اور فیصلہ سنانے والے بھی ضعف الطالب و المطلوب کے مصداق ہیں۔ درخواست گزار غیر مسلموں کے تہواروں پر شراب کی فروخت کی اجازت اور باقی دنوں میں پابندی چاہتا تھا۔ یہ دین کے حکم کا مذاق اڑانا ہی ہے۔ ایک مرتبہ پھر عمران خان کے اولین فیصلوں کا ذکر ہو جائے جب انہوں نے آتے ہی ایک قادیانی کو مشیر بنانے کا عندیہ دیا تو ہنگامہ برپا ہو گیا لیکن جو قوالی حکومتی حلقوں نے گائی اس میں تو دین کا کھلم کھلا مذاق اڑایا گیا تھا۔ یہ حکمران تعلیمی نصاب سے امہات المومنین کے اسباق خارج کر رہے ہیں۔ جہاد کے احکامات غائب کر رہے ہیں۔ ان کے افعال کو دین کا مذاق اڑانا ہی کہا جائے گا۔ قادیانیوں سے محبت اور لگائو تو بار بار عود کر آتا ہے اور سود کے حق میں تو مستقل پالیسی ہے۔ ایک سابق چیف جسٹس نے بھی وہی جاہلانہ سوال کیا جو جاہل قریشی کیا کرتے تھے کہ تجارت بھی ربا کی طرح ہے۔ چیف جسٹس کہتے تھے کہ تجارت میں بھی تو منافع ہوتا ہے اور ربا میں بھی۔ دونوں میں کیا فرق ہے۔ جبکہ قرآن نے واضح فرمایا ہے کہ اللہ نے تجارت کو حلال اور سود کو حرام قرار دیا ہے۔ اس کے باوجود ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کا سربراہ جاہل قریشیوں والا سوال پوچھ کر دین کا مذاق ہی تو اڑا رہا تھا۔ ایسے لوگوں کے بارے میں قرآن ہی کے الفاظ ہیں جن میں ان کے انجام کا ذکر بھی ہے۔’’جنت والے گناہ گاروں سے پوچھیں گے۔ تمہیں کس چیز نے دوزخ میں ڈالا، وہ کہیں گے کہ ہم نمازی نہ تھے اور نہ ہم مسکینوں کو کھانا کھلاتے تھے اور ہم دین کا مذاق اڑانے والوں کے ساتھ مل کر دین کا مذاق اڑاتے تھے، اور آخرت کے دن کو جھٹلاتے تھے۔ (المدثر)‘‘ کیا یہ ساری خصلتیں ہمارے حکمرانوں اور دین بیزار طبقے میں نہیں۔ پھر ملک پر اور معیشت پر عذاب اور تنگی کیوں نہ آئے گی۔ اللہ ہر مسلمان کو ایسے کام کرنے سے بچائے اور اس کا انجام اچھا اور خیر کے ساتھ کرے۔ علمائے کرام صرف چاند کے مسئلے پر گرفت نہ کریں وہ خود آگے بڑھیں اور زمام کار تھامنے کے لیے تیار ہو جائیں تو سارا ملک ان کے پیچھے چلے گا۔