زرعی ملک میں گندم کا بحران

 

روٹی انسان کی بنیادی ضرورت ہے، سالن اگر نہ بھی ہو تو لوگ پیاز اور اچار کے ساتھ کھا کر گزارا کرلیتے ہیں، سوکھی روٹی کو پانی میں بھگو کر پیٹ کی آگ مٹانے کے لیے سب سے زیادہ استعمال کی جاتی ہے اور ایسے لوگ بھی ہیں کہ چاہے کچھ بھی کھائیں لیکن جب تک دو چار لقمے روٹی کے نہ لے لیں اُن کی سیری نہیں ہوتی۔ گندم کا استعمال صرف روٹی تک محدود نہیں بلکہ برگر، پیزا، پاپے اور بیکری کی زیادہ تر اشیا میں گندم ایک لازمی جز ہے۔ اس سے گندم کی اہمیت کا اندازہ باآسانی لگایا جاسکتا ہے جس سے کئی قسم کے آٹے سے میدہ اور سوجی بھی حاصل کیے جاتے ہیں۔ پاکستان ایک زرعی ملک ہے جو گندم کی پیداوار میں بڑی اہمیت رکھتا ہے اور دنیا میں آٹھواں بڑا ملک ہے جو ہر سال ڈھائی کروڑ ٹن سے زیادہ گندم پیدا کرتا ہے، ایسے ملک میں گندم اور آٹے کی قیمت میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ گندم فی 40 کلو گرام بیگ کی سرکاری قیمت 1450 روپے ہے اور مارکیٹ میں اس کی قیمت 2200 روپے تک پہنچ گئی ہے۔ اسی طرح آٹے کی قیمت میں بھی 40 سے 50 فی صد تک گزشتہ 2 سال میں اضافہ ہوچکا ہے اور آٹے کا 10 کلو گرام کا تھیلا ملک کے مختلف حصوں میں 900 روپے سے 1200 روپے میں فروخت ہورہا ہے۔ سال رواں کے شروع میں آٹے اور چینی کا جو بحران پیدا ہوا تھا اس کی تحقیقات کے لیے کمیٹی تشکیل کی گئی جس نے اپنی رپورٹ اپریل میں فائنل کردی۔ اس رپورٹ کے مطابق بحران کا ذمے دار مڈل مین، مل مالکان اور بااثر سیاسی لوگ قرار دیے گئے۔ اس رپورٹ پر اب تک کوئی کارروائی نہیں ہوئی اور چینی اور آٹے کی قیمتوں میں کوئی کمی نہ ہوئی بلکہ گندم اور آٹے کا نیا بحران جنم لے رہا ہے جس کے لیے حکومت ہاتھ پائوں مارتی دکھائی دے رہی ہے۔
گندم کی پیداوار سے لے کر آٹے کا تھیلا عام دکانوں تک سپلائی کرنے میں کئی کھلاڑی شامل ہیں۔ ایک طرف تو وہ بڑے زمیندار اور چھوٹے کسان شامل ہیں جو گندم کی کاشت میں حصہ لیتے ہیں۔ دوسری طرف مڈل مین ہے جو کاشت کاروں سے گندم خریدتا ہے۔ حکومت ہر سال گندم کی خریداری کی قیمت مقرر کرتی ہے۔ چھوٹے کاشت کار حکومت کو گندم فروخت نہیں کرپاتے بلکہ مڈل مین کو بیچ دیتے ہیں جو سستے داموں گندم خرید لیتا ہے۔ حکومت چھوٹے اور بڑے کاشت کاروں سے محکمہ خوراک کے ذریعے گندم کا ذخیرہ ایسے گوداموں میں کرلیتی ہے جو پورا سال آہستہ آہستہ مارکیٹ میں فلور ملز کو سپلائی کیا جاتا ہے اور یہ فلور ملز حکومت کے مقرر کردہ سرکاری داموں پر مارکیٹ میں آٹا فروخت کرنے کے پابند ہوتے ہیں۔ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ رواں سال جو گندم کی پیداوار کا صرف یعنی دو کروڑ سترہ لاکھ ٹن، وہ ٹڈی دل کے حملے اور دیگر وجوہ سے پورا نہیں ہوسکا۔ دوسرے ذخیرہ اندوزوں اور منافع خوروں جن میں مڈل مین اور فلورز ملز مالکان شامل ہیں انہوں نے 5 ملین ٹن گندم چھپائی ہوئی ہے۔ تیسرے وفاقی حکومت یہ چاہتی ہے کہ گندم کی آزادانہ نقل و حمل بین الصوبائی سطح پر جاری رہے تا کہ جہاں قلت ہو وہاں دوسرے صوبے سے گندم سپلائی ہوسکے مگر صوبہ سندھ جس نے اس سال کی گندم پیداوار کا ہدف پورا کرلیا ہے وہ سندھ کی گندم کو پنجاب جانے سے روک رہا ہے۔ اس طرح پنجاب اور خیبر پختون خوا میں گندم کی قلت ہورہی ہے اور آٹا مہنگا ہورہا ہے۔
اس صورت حال سے نمٹنے کے لیے پنجاب حکومت نے پاسکو میں جو گندم کا ذخیرہ ہے وہاں سے پنجاب اور کے پی کے کو سپلائی شروع کردی ہے۔ اس کے علاوہ سرکاری سطح پر گندم کی درآمد کے لیے آرڈر جاری کردیے ہیں جو یوکرائن سے جلد پاکستان پہنچ جائے گی۔ اس کے علاوہ پرائیویٹ سیکٹر کو بھی گندم کی درآمد کی اجازت دے دی ہے اور درآمد پر عائد ٹیکس اور ڈیوٹیز ختم کردی ہیں۔ اس طرح گندم کی قلت کا مسئلہ حل ہوجائے گا۔ لیکن یہ مناسب و معقول حل نہیں ہے کہ پاکستان جیسا گندم پیدا کرنے والا ملک گندم کی درآمد کرنے پر مجبور ہو اور زرمبادلہ کا ضیاع ہو۔ اصل میں ذخیرہ اندوزوں، فلور ملز مالکان اور مڈل مین کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے تا کہ گندم کی سپلائی اس کی طلب کے مطابق ہو اور درآمد کرنے کی نوبت نہ آئے۔