بحران دربحران

368

بحران کے معنی ہیں: ’’سراسیمگی، دیوانگی کی حالت، بخار وغیرہ میں اچانک پیدا ہونے والا تغیر، مریض پر حالتِ بیماری اور تندرستی کی کشمکش‘‘۔ یعنی جب حالات ایک جیسی صورتِ حال پر برقرار نہ رہیں، مدّوجزر اور تغیّر وتبدّل آتا رہے تو اُسے بحران کہتے ہیں، ظاہر ہے کہ ایسی صورتِ حال میں اعتماد قائم رہنا دشوار ہوتا ہے۔ پی ٹی آئی کی حکومت کو دو سال ہونے کو ہیں، وہ بالعموم بحرانی کیفیت سے دوچار رہی ہے۔ ابھی تک حکمرانوں میں ذمے داری قبول کرنے کا مزاج پیدا نہیں ہوا، اس لیے وہ ہر ناکامی اور بحران کا ملبہ اپنے پیش روئوں پر ڈال کر اطمینان محسوس کرتے ہیں۔ ٹیلی ویژن مباحثوں اور میڈیا کے سامنے مخالفین پر یلغار کرنے، ان کی توہین و تضحیک کرنے اور ان پر الفاظ کی چاند ماری کرنے کو وہ اپنی کامیابی گردانتے ہیں اور انہیں اس کا حق ہے۔
لیکن لوگوں پر جو بیت رہی ہے اور جن حالات کا وہ سامنا کر رہے ہیں، ان کی تسکین لفظی جنگ سے ہو نہیں پائے گی، نہ اس سے کسی کی بھوک مٹتی ہے، نہ چولہا جلتا ہے، نہ زندگی کو راحت ملتی ہے۔ سو عوام کے نزدیک حکومت فیض رسانی کا نام ہے، جسے انگریزی میں Deliver کرنے سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ پس یہ حکومت کے سوچنے کا کام ہے کہ وہ اپنی کامیابی گردانتے ہوئے اسی حکمتِ عملی کو جاری رکھیں یا اپنے آپ کو اپنی پالیسیوں اور طرزِ حکومت کے لیے جوابدہ سمجھیں۔
کورونا وائرس کی وبا ایک آفتِ ناگہانی ہے، یہ عالمی مسئلہ ہے، اس سے دنیا کی ساری حکومتیں متاثر ہوئی ہیں اور عالمی معیشت کو دھچکا لگا ہے۔ اگرچہ ایسے بحرانوں کے بعد جب اٹھان کا مرحلہ آتا ہے، تو جو حکومتیں اس کے لیے تیار ہوتی ہیں، ان کو غیرمعمولی کامیابی بھی ملتی ہے اور نہ صرف ان کے نقصانات کی تلافی ہوجاتی ہے، بلکہ اضافی فوائد بھی حاصل ہوجاتے ہیں۔ لیکن اس کے لیے اہلیت وصلاحیت اور فعالیت درکار ہوتی ہے۔ پس کورونا وائرس کی وبا کے نتیجے میں ہونے والے نقصانات یا معیشت میں جمود یا ترقی معکوس پر حکومت کو ملامت کرنا روا نہیں ہے، کوئی بھی حکومت ہوتی، اُسے ان مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا، تاہم وزیر اعظم نے احساس پروگرام کے ذریعے تقریباً سوا کروڑ خاندانوں کو سہارا دیا اور اس کی شفافیت پر انگلی نہیں اٹھی، یہ کاوش قابلِ تحسین ہے۔
لیکن شوگر، پٹرول اور آٹے کے بحران کے لیے حکومت یقینا جوابدہ ہے، اُس کے لیے اس جوابدہی سے گریز ممکن نہیں ہے، اپوزیشن کے خلاف جارحانہ بیان بازی اور ان کی کمزوریوں کو بار بار دہرانا، اس جوابدہی کا متبادل نہیں ہے۔ وزیر اعظم اور ان کے ترجمانوں کو یقین ہونا چاہیے کہ لوگوں کو ان تقاریر کو سنتے ہوئے نو سال ہوچکے ہیں، یہ سب باتیں لوگوں کو اَزبر ہیں، بلکہ ایک ہی جیسے الفاظ والزامات کی جگالی کرتے رہنے سے طبیعت اکتا جاتی ہے۔ ہوسکتا ہے کہ حکمران جماعت کو اس سے ذہنی سرور محسوس ہوتا ہو اور وہ بجا طور پر یہ سمجھتے ہوں کہ اسی جارحانہ حکمتِ عملی کو اختیار کر کے وہ اقتدار پر فائز ہوئے ہیں، لیکن اختیار واقتدار اور مناصبِ جلیلہ ذمے داری اور بردباری کا تقاضا کرتے ہیں۔
شوگر اور آٹے کے بحران کی ذمے داری سابق حکمرانوں اور سابق ادوارِ حکومت پر نہیں ڈالی جاسکتی، اس کی ذمے داری موجودہ حکومت کو اٹھانی پڑے گی اور آئندہ انتخابات میں یہ کارکردگی اپنے نتائج دکھائے گی۔ جب تک ذمے داروں کا تعین کر کے اُن کو قرارِ واقعی سزا نہیں دی جاتی، محض انکوائری کمیشن بنانا، اس کی رپورٹوں کو شائع کرنا اور محض مافیا کہہ کر جان چھڑانا بھی کافی نہیں ہے، یہ تو گریز کا ایک بہانہ ہے، خود صدرِ پاکستان کہہ چکے ہیں: ’’ہر حکومت میں مافیا ہوتے ہیں اور موجودہ حکومت میں بھی ہیں‘‘۔ آپ کا نعرہ پہلے سے جاری عوام دشمن روایات کو اپنی ناکامیوں کا جواز بنانا نہیں تھا، بلکہ روایت شکن بن کر انہیں توڑنا تھا۔
اگر کسی فصل کی پیداوار پہلے سے طے شدہ تخمینوں کے مطابق نہ ہوئی ہو، خواہ اس کا سبب انتظامی نااہلی یا قدرتی آفات ہوں، تو بھی فصل سنبھالتے ہی بحران پیدا نہیں ہوتے، بلکہ اگر درآمدات کے ذریعے بروقت کمی کو پورا نہ کیا جائے، تو کچھ وقت گزرنے کے بعد بحران پیدا ہوتا ہے، لیکن آٹے کا بحران تو گندم کی فصل سنبھالتے ہی پیدا ہوگیا، صارفین پر زیادہ بوجھ ڈال دیا گیا ہے اور کچھ خبر نہیں کہ آگے چل کر قیمتیں کہاں تک پہنچیں گی، نیز اس کا فائدہ بھی کاشت کار کو نہیں پہنچا۔ سو اس میں حکومت کی کارکردگی اور متعلقہ حکومتی محکموں کی نااہلی کے عنصر کو پروپیگنڈے کے زور پر دبایا نہیں جاسکتا، اگر اس کا سائنٹیفک تجزیہ کر کے اس پر قابو نہ پایا گیا، تو اندیشہ ہے کہ آئندہ اور بھی اس طرح کے بحران پیدا ہوسکتے ہیں۔
مانا کہ مختلف تحقیقاتی کمیشنوں کی رپورٹیں شائع کرنا اور عوام کو باخبر رکھنا آپ کی حکومت کا کارنامہ ہے اور یہ قابلِ تحسین ہے، لیکن دانا لوگوں نے کہا ہے: ’’نقل را عقل باید‘‘، اس کے لیے بھی عقل ودانش کی ضرورت ہوتی ہے، کسی بھی رپورٹ کے مندرجات کو عام کرنے سے پہلے اس کے مثبت اور منفی پہلوئوں کا غیر جذباتی انداز میں جائزہ لینا ہوتا ہے، ورنہ کیا وجہ ہے کہ آج تک ایبٹ آباد کمیشن کی رپورٹ منظرِ عام پر نہیں آئی۔ چنانچہ غیر متعصب اور غیر جانبدار مبصرین کا اس پر اتفاق ہے کہ پی آئی اے کے طیارے کے حادثے کی جوانکوائری رپورٹ قومی اسمبلی میں پیش کی گئی اور اُسے کابینہ کی منظوری سے شائع کیا گیا، وزیرِ اعظم نے بھی اس کی ذمے داری قبول کی، اس کا پی آئی اے، سول ایوی ایشن اور پاکستانی پائلٹس کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا ہے اور اس کی بھاری قیمت ادا کرنی پڑے گی، فارسی کا مقولہ ہے: ’’دروغِ مصلحت آمیز بہ از راستِ فتنہ انگیز‘‘، حدیث پاک میں بھی ہے: ’’اَلْحَرْبُ خَدعَۃٌ‘‘، یعنی جنگ دشمن کو فریب دینے (اور خود اس کے فریب سے بچنے) کا نام ہے، (بخاری)‘‘۔ تشہیر کے بغیر اس رپورٹ کی روشنی میں پی آئی اے اور سول ایوی ایشن کی خامیوں کا احسن طریقے سے ازالہ کیا جاسکتا تھا۔
بین الاقوامی سفارت کاری ایک سائنس ہے، اس کے لیے یونیورسٹیوں میں پولیٹیکل سائنس اور ’’تعلقاتِ بین الاقوام‘‘ کی کلّیات قائم ہیں۔ سفارت کاری کے میدان میں ایک ایک لفظ ناپ تول کر بولا جاتا ہے۔ نقصان صرف اتنا ہی نہیں ہوا کہ بڑی تعداد میں ہمارے پائلٹوں کے لائسنس منسوخ ہوگئے ہیں، بلکہ محکمہ شہری ہوابازی کی صلاحیت اور اعتبار پر سوالات اٹھنے لگے ہیں، مشتبہ سمجھا جارہا ہے، نیز دنیا کے ایک بڑے حصے کی فضائوں کو ہمارے ہوائی جہازوں کی پرواز کے لیے ممنوع قرار دیا گیا ہے، شہرت اور وقار و اعتبار کا نقصان مالی نقصان سے زیادہ ہوتا ہے۔
اقتدار سنبھالنے کے ابتدائی دنوں میں جنابِ اسد عمر نے کہا تھا: ’’ہم گشتی قرضوں کو 2020 کے آخر تک ختم کردیں گے‘‘، لیکن بعض اخبارات نے رپورٹ کیا ہے کہ آئندہ چند سال میں گشتی قرضے چار ہزار ارب تک پہنچ سکتے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ایک با اختیار پارلیمانی کمیٹی بنائی جائے، جو IPPs کے تمام معاملات کا جائزہ لے، کہا جاتا ہے کہ پاکستان میں بیالیس سے زائد انڈیپنڈنٹ پاور پروڈیوسر کمپنیاں ہیں، اُن سے کیے گئے معاہدوں میں پاکستان کے مفادات کا پوری طرح تحفظ نہیں کیا گیا، 2013ء سے 2018 تک کے دورانیے میں جو معاہدے ہوئے، وہ حالات کے جبر کا نتیجہ تھے، کیونکہ بجلی کا بحران قابو سے باہر ہوچکا تھا، اب وقت آگیا ہے کہ ان معاہدوں کو ملکی مفادات کے تابع بنایا جائے، اس کے لیے باقاعدہ قانون سازی کی جائے اور اس امر کا بھی جائزہ لیا جائے کہ اگر معاملات تَفْہِیْم وتَفَہُّم سے حل نہ ہوئے، تو بین الاقوامی ٹرائبونلز میں قومی مفادات کا دفاع کیسے ہوگا۔ ہم بہت پہلے تفصیل سے لکھ چکے ہیں کہ جب تک لائن لاسز اور بجلی کی چوری کا سدِّباب نہیں ہوتا، یہ مسئلہ ناقابلِ حل رہے گا، اس لیے ہر حکومت اس بھاری پتھر کو اٹھاکر رکھ دیتی ہے۔ یہ بھی جاننے کی ضرورت ہے کہ سابق حکومتوں نے آئی پی پیز سے فی میگا واٹ بجلی کی قیمت کے تعین کا جو فارمولا طے کیا ہے، آیا وہ گردوپیش کے ممالک سے مناسبت رکھتا ہے، قیمتیں ان کے برابر ہیں یا اُن سے زائد ہیں، اگر اُن سے زائد ہیں تو کس قدر اور ان کا جواز کیا ہے اور اب ہم جس صورتِ حال میں گرفتار ہیں، اس سے نجات کا طریقۂ کار کیا ہوسکتا ہے۔
نیز وفاقی اور صوبائی حکومتیں اور ان کے ذیلی ادارے بھی نادہندگان میں شامل ہوتے ہیں، اس روایت کا بھی خاتمہ ہونا چاہیے۔ اگر صوبائی حکومتیں اپنے ذمے بجلی کے بلوں کے بقایا جات ادا نہیں کرتیں تو بجٹ میں ان کے حصے سے براہِ راست کٹوتی کی جائے، آخر ملک کو بھی تو چلانا ہے۔ یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ کے الیکٹرک نے تانبے کی تاریں اتار کر المونیم کی تاریں کیوں بچھائیں اور تانبے کی تاروں کا وہ اسٹاک کہاں گیا، نیز یہ کہ آیا المونیم کی تاروں میں بجلی کا پورا لوڈ اٹھانے کی استعداد ہوتی ہے، اگر نہیں تو ایسا کیوں کیا گیا، وزیر توانائی عمر ایوب نے کہا: ’’اگر ہم نیشنل گرڈ سے کے الیکٹرک کو مطلوبہ بجلی دے بھی دیں، تو اُن کا ترسیلی نظام اس بوجھ کو اٹھانے کا متحمل نہیں ہوسکتا‘‘۔ قومی ادارے غیر ملکی خریداروں کو دینے کا ایک ترجیحی سبب یہ ہے کہ وہ باہر سے زرِ مبادلہ لائیں گے اور یہاں اس کی سرمایہ کاری کریں گے، اس سے روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے، زرِ مبادلہ کے قومی ذخائر کو تقویت ملے گی، لیکن پاکستان میں سب کچھ اس کے برعکس ہوا۔ کے الیکٹرک نے اپنی پرانی مشینری کے رینٹل کے عوض صکوک بنائے، مقامی بینکوں کے ذریعے سرمایہ حاصل کیا اور باہر سے زرِ مبادلہ اندر لانے کے بجائے اندر سے کما کر باہر بھیجا جاتا رہا، چنانچہ کے الیکٹرک کے چیف ایگزیکٹیو سید مونس علوی نے کہا: ’’ہم کو پاکستانی بینکوں کے پچاسی ارب روپے دینے ہیں‘‘۔ پی ٹی سی ایل کو اتصالات نے خریدا، محض 26فی صد حصص خریدنے پر انہیں مکمل انتظامی اور مالیاتی کنٹرول دے دیا گیا اور ہماری معلومات کے مطابق انہوں نے تکنیکی بنیادوں پر معاہدے کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے آج تک بقایا جات ادا نہیں کیے۔