جعلی ادویات اور سزائے موت کے مستحقین

305

چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس گلزار احمد نے ایک مقدمے کی سماعت کے دوران کہا ہے کہ جعلی ادویات بنانے اور فروخت کرنے والے سزائے موت کے مستحق ہیں۔ ایک تلخ حقیقت اور گمبھیر مسئلے کا حل یوں بہت آسان لفظوں میں بیان کرنے عوام کے دل کی آواز ہے۔ یوںچیف جسٹس آف پاکستان نے قوم کی دُکھتی رگ پر ہاتھ رکھا ہے۔ اس ملک میں جعل سازی سب سے کامیاب صنعت اور دوڑتا ہوا کاروبار ہے۔ جس شعبے پر نظر دوڑائیں جعلی سازی کے جراثیم رینگتے نظر آئیں گے۔ یوں کس کس کو جعلی سازی میں پھانسی دی جائے اور اگر اس پر عمل بھی ہوتا ہے تو باقی کون بچے گا؟ وہ لوگ جو بے چارے کسی بھی فن سے آشنا نہیں۔ یہ ملک اس وقت جعل سازوں کے سر پر ہی چل رہا ہے وہی اس کی جڑوں کے اندر تک سرایت کیے بیٹھے ہیں۔ ایک دور میں ڈبل شاہ کا کردار جعل سازی کی علامت کے طور پر مشہور ہوا تھا۔ حقیقت میں پورا نظام ہی ڈبل شاہ پیدا بھی کررہا ہے اور ڈبل شاہ ہی اس نظام کو کنٹرول بھی کر رہے ہیں۔ دنیا کی ہر جعل سازی کی طرح ادویات کی تیاری اور فروخت میں جعل سازی کی بیماری بھی ہمارے قومی وجود کو لاحق ایک لاعلاج مرض ہے۔ منشیات فروش ہوں یا جعلی ادویات بنانے اور فروخت کرنے والے حقیقت میں موت فروشی کا گھناونا کاروبار کرتے ہیں۔ یہ زندہ اور جیتے جاگتے انسانوں کو موت کی وادیوں تک پہنچا کر اپنی تجوریاں بھرتے ہیں۔ یہ سفاک اور بے رحم لوگ ہوتے ہیں جن کا انسانیت اور انسانی اقدار پر یقین نہیں ہوتا بلکہ ان کا مذہب ہی پیسہ کمانا ہوتا ہے۔ پیسہ کمانے کی ہوس میں یہ لوگ انسانیت کے اعلیٰ میعار سے گر کر سفاکی کے اسفل درجے پر فائز ہوتے ہیں۔ ان کے دل میں معاشرے ملک اور قوم کے لیے کوئی درد رہتا ہے نہ ہمدردی کی کوئی رمق باقی رہتی ہے۔ یہ شیطان صفت لوگ فقط اپنے منافع کے چکر میں موت فروشی کا کاروبار کرتے ہیں۔ ریاست کو ان لوگوں کے نام پتے اور ڈاک خانے اچھی طرح معلوم ہوتے ہیں مگر جس طرح انسانیت کو مافیاز نے یرغمال بنا رکھا ہے اسی طرح یہ مافیا بھی اتنا مضبوط ہے کہ کوئی اس گھنائونے کاروبار سے وابستہ لوگوں سے آہنی ہاتھوں سے نمٹنے کی جرأت ہی نہیں کرتا۔
پاکستان میں جعلی ادویات انسانوں کے لیے سلو پوائزن کا کام دیتی ہیں اور آئے روز لوگ ناقص اور جعلی ادویات کی وجہ سے نئے نئے امراض کا شکار ہوجاتے ہیں۔ یہاں بازاروں میں جعلی ادویات سے وابستہ تاجروں کو ہر شخص بخوبی جانتا اور پہچانتا ہے مگر دوائی کے لیے لوگ پھر انہی میڈیکل اسٹورز کا رخ کرتے ہیں۔ ایفیڈرین کیس میں جو کچھ ہوا تھا برسوں گزرنے کے بعد بھی دل دہلا دینے کا باعث ہے۔ دل جیسے خطرناک مریضوں کو ناقص دوائی دے کر موت کی نیند سلادیا گیا۔ اسی طرح گردوں، معدے اور دل سمیت بہت سے امراض کے پھیلائو کی وجہ جہاں ناقص خوراک ہے وہیں اس کی وجہ ناقص اور جعلی ادویات بھی ہیں۔ آئے روز اس طرح کے اسیکنڈلز میڈیا میں لمحہ بھر کو اُبھرتے ہیں اور پھر ڈوب کر حافظے کی لوح سے مٹ جاتے ہیں۔ اس اسیکنڈل کے مرکزی کرداروں کے ساتھ قانون کیا سلوک کرتا ہے یہ کہانی کبھی منظر عام پر نہیں آتی۔ ظاہر ہے کہ ہمارا قانونی اور عدالتی نظام جس حالت نزع میں ہے اس میں چند پیشیوں کے بعد موت فروشوں کا قانون کے جال سے نکل جانا یقینی ہوتا ہے۔ یہ کام کرنے والے معاشرے کے عام ماجھے گامے تو ہوتے نہیں کہ قانون کی چکی میں پستے چلے جائیں اور جیلوں میں پڑے پڑے سڑھتے رہیں۔ یہ بااثر لوگ ہوتے ہیں جو نجانے کتنی حکومتوں کے قیام میں حصہ دار رہ چکے ہوتے ہیں اور کن شخصیات اور جماعتوں نے انتخابی مہم میں ان کی سرمایہ کاری سے استفادہ کیا ہو۔
مافیاز کا طریقہ کار ہی یہی ہوتا ہے کہ وہ معاشرے کے قابل ذکر حلقوں میں اپنا جال پھیلا لیتے ہیں اور کسی اژدھے کی طرح معاشرے کے گرد اپنا حصار قائم کرتے ہیں۔ جعلی ادویات کی تیاری اور فروخت میں بھی پاکستان اسی حصار کی زد میں ہے۔ اس حصار کو توڑنے کے لیے جو عزم درکار ہے وہ ہماری حکومتوں میں قائم نہیں۔ اس کی وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ نجانے کتنے ہی عوامی نمائندے بظاہر لیبل تو کسی جماعت کا لگائے پھرتے ہوں اصل میں وہ کسی ایسے ہی مافیا کے نمائندہ اور ترجمان ہوں۔ اس لیے حکومتوں سے اس طاقتور مافیا کے خلاف سخت اقدامات کی توقع اب بے کار ہے۔ چیف جسٹس آف پاکستان نے ایک خواہش کا اظہار کیا ہے اور یہ حقیقت عوام کی ہی خواہش کی عکاس اور ترجمان ہے۔ اب حکومت کو چاہیے کہ مصلحت کی ہتھکڑیاں اور بیڑیاں کھول کر موت فروشوں اور انسانیت دشمن افراد کے خلاف موثر کارروائی کرے۔ ابھی تو ادویات مہنگی کرنے والوں کو کیفردار تک پہنچنا باقی ہے۔ عزم زندہ اور جذبے صادق ہوں تو سب کچھ کیا جا سکتا ہے مگر ہمارا پورا نظام مکڑی کا جالا ہے جس میں جعلی اسٹور سے دوائی کی ڈبیا چرانے والوغریب کو تو سزا ہو سکتی ہے مگر اس اسٹور کے مالک اور اس کی دوائیاں تیار کرنے والی کمپنی کے مالک کا کوئی بال بیکا نہیں کرسکتا۔ پاکستان کے تنزل اور لازول کی وجہ عدم مساوات پر مبنی یہ رویے ہیں۔