آ گ ہی آگ اور بھڑکتے شعلے اور ان میں جماعت اسلامی اور اسلامی چھاترو شبر (اسلامی جمعیت طلبہ) کے کڑیل نوجوانوں کو ڈھاکا کے پلٹن میدان میں اذیت ناک موت کے حوالے کیا جارہا تھا اور یہ سب کچھ کلمہ پڑھنے والے اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے تھے اور دنیا بھر کے انسانی حقوق کے علمبردار خاموش تماشائی بنے ہوئے تھے۔ تاریخ اپنی روایات کو کبھی نہیں بھلاتی یہ بات تاریخ کا حصہ ہے کہ ’’آگ اور بھڑکتے شعلوں کا ’’مقدر‘‘ راکھ ہو جانا ہی ہے اور اس راکھ کو پیتل جیسی سخت اور تانبے کی سی نرم دھات پر رگڑا جائے تو یہ صاف اور شفاف ہو کر چمکنے لگتی ہے۔ آج بنگلادیش میں شیخ مجیب الرحمن کی بیٹی ’’حسینہ واجد‘‘ پاکستان کے خلاف ’’آگ اور بھڑکتے شعلوں‘‘ کو ختم کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ شیخ مجیب الرحمن کی بیٹی ’’حسینہ واجد‘‘ ہی پاکستان کے خلاف آگ کو ٹھنڈا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں اور اب وہ بھارت سے دور اور چین کے قریب ہو رہی ہیں بنگلادیشی وزیر اعظم ’’حسینہ واجد‘‘ اور پاکستانی وزیر اعظم عمران خان کے درمیان ایک طویل ٹیلی فون ’’کال‘‘ نے بھارت اور امریکا دونوں کے کان کھڑے کر دیے۔ یہ کوئی معمولی کال نہیں تھی اس کال نے بھارت اور امریکا کو پریشان کر دیا ہے اور دونوں اس کھوج میں ہیں کہ ’’حسینہ واجد‘‘ کو کیا ہو گیا اور اب خطے میں کیا ہونے جارہا ہے۔ بنگلادیشی وزیر اعظم حسینہ واجد اور پاکستانی وزیر اعظم عمران خان کے درمیان ایک طویل ’’کال‘‘ سے قبل جسارت میں 27جون 2020ء کے انہیں کالم میں لکھا تھا کہ: ’’بنگلادیش کی وزیر اعظم حسینہ واجد نے مودی کو ’’شٹ اپ پیغام بھیج دیا‘‘۔ بنگلادیش کے وزیرِ خارجہ اے کے عبدالمومن نے چین اور بنگلادیش کے درمیان بڑھتے ہوئے تعلقات پر بھارت کی بے جا بیان بازی پر اپنے ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ: ’’بھارت کو بیان بازی کرتے وقت اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ بنگلادیش اور بھارت کے درمیان سفارتی تعلقات وسیع پیمانے پر ہیں۔ جن ممالک کے درمیان سفارتی تعلقات ہوں انہیں گفتگو میں سفارتی آداب کا مکمل خیال رکھنا ضروری ہے۔ بھارت نے چین بنگلادیش تعلقات پر جس انداز سے گفتگو کی ہے اس سے بنگلا دیش کی توہین ہوئی ہے اور یہ بدتمیزی کہلاتی ہے۔ اس لیے ضروری ہے بھارت اس طرح کی گفتگو سے پرہیز کرے‘‘۔ یہ سب کچھ اس بات کا اعلان تھا کہ ’’سی پیک‘‘ ایک الگ اتحاد بن رہا ہے اور اس کی راہ میں ’’مودی یا ٹرمپ‘‘ آئے وہ تاریخ کا حصہ بن جائیں گے۔
اب یہ بھی دیکھتے ہیں پاکستان و بنگلادیش کے تعلقات کیسے ہیں؟ یہ تعلقات عوام میں درست ہیں البتہ جو اختلافات ہیں وہ دونوں ممالک کی حکومتوں کے مابین ہیں۔ بنگلا دیش اور پاکستان کے تعلقات میں خاص طور پر 1947ء سے 1971ء تک جو اختلافات کچھ اپنوں اور کچھ غیر مکاروں نے پیدا کیے تھے ان کی وجہ سے خراب ہوئے تھے۔ جس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ بنگلا دیش کے بانی اور وہاں کی قوم پرست پارٹی کے رہنما شیخ مجیب الرحمن نے پاکستان سے مشرقی پاکستان کو بھارت کی حمایت سے الگ ملک بنایا تھا لیکن یہ اختلاف بھی صرف مشرقی پاکستان کے قوم پرست لیڈران اور شیخ مجیب الرحمن ، مولانا بھاشانی کی پارٹی اور ان کے چند قریبی ساتھیوں اور چند پارٹی رہنماؤں تک محدود تھا 1965ء کی پاک بھارت جنگ کے بعد بھارت نے ان رہنماؤں کو ہر طرح کی مدد کا یقین دلایا۔ اس کے ساتھ عوامی لیگ نے ایک عسکری ونگ ‘‘مکتی با ہنی‘‘ (مطلب آزادی کے شیر) بنا ڈالا اور اس کی تربیت بھارت میں کی گئی جہاں سے ’’مکتی باہنی‘‘ کے ساتھ بنگلادیش واپس آنے والوں میں بھارتی عسکری ونگ کے افراد بھی شامل ہو جاتے۔ (اس بات کا ذکر بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے بنگلادیش کے دورے کے موقع پر خصوصی طور پر کیا اور یہ سب کچھ ریکارڈ میں موجود ہے)
ماضی قریب ہی میں بنگلادیش میں جماعت ِ اسلامی کے رہنمائوں کو پھانسی دی گئی تھی جن پر بھی یہی الزام تھا کہ ان رہنماؤں نے 1971ء میں پاکستانی فوج کا ساتھ دیا تھا۔ تمام تر پھانسیوں کے ٹرائل کی شفافیت پر بھی اعتراضات کیے گئے تھے، مگر بنگلادیش نے کسی کی ایک نہ سنی۔ بنگلادیش کے قیام کے وقت قتل عام ہوا تھا جو مکتی باہنی نے کیا تھا اور اس قتل ِ عام میں کوئی فرق مذہب اور زبان کی بنیاد پر نہیں تھا۔ قیام بنگلادیش کے دوران قتل عام میں اکثریت بنگالیوں کی تھی یہ سب مسلمان تھے۔
یہ ایک ایسا المیہ ہے جسے ہر فریق اپنی مرضی کے رنگ کی عینک سے دیکھتا ہے لیکن حقیقت کو کسی بھی عینک سے دیکھا جائے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ بنگلادیش والے البدر اور الشمس کا رونا روتے رہتے ہیں لیکن مکتی باہنی کی درندگی بھول جاتے ہیںیہ چھپی ہوئی داستان نہیں ہے سب کچھ چھپا ہوا ہے۔ یہاں کچھ سوال بنگلادیش والوں سے بنتے ہیں۔ کیا ان لوگوں کو جن کو پھانسی دی گئی ہے، کسی پر جرم ثابت کیا جاسکا؟ بلکہ یہ سب سیاسی مخالفت کی بنیاد پر تھا اورجاری ہے۔ مقدمات میں انصاف اور قانون کے تقاضے پورے کیے گئے ہیں؟ ان مقدمات میں ملزم اور مجرم کی تفریق، شک اور یقین کا تعین، گواہ اور قیاس کا فرق، سچ اور جھوٹ کی جانچ کی گئی ہے؟ اتنے عرصے بعد گڑے مردے اکھاڑنا بھارت کی کوئی سیاسی چال کا حصہ تو نہیں تھا؟ کیا ریاست سے وفاداری کی تعریف ریاست کے نام بدل دینے سے قابلِ تعزیر بن جاتی ہے؟ اس سلسلے میں ہم نے 27جون 2020 کے اپنے کالم لکھا تھا کہ: ’’نریندر مودی نے وزیر اعظم بنتے ہی بنگلادیش کا دورہ کیا اور اپنے دورے کی پہلی پریس کانفرنس میں بنگلادیشی وزیر اعظم حسینہ واجد کو بھارت کا مخالف قرار دے دیا اور کہا کہ بنگلادیش میں بھارت مخالف اور پاکستان کی حامی ’’جماعت ِ اسلامی‘‘ بنگلادیش میں 25سے 30فی صد ووٹ کی حقدار بنی بیٹھی ہے اور وزیر اعظم حسینہ واجد جماعت ِ اسلامی کو بڑھاوا دے رہی ہیں۔ یہ سب کچھ ایک ایسے وقت میں ہو رہا تھا جب بنگلادیش میں انتخابات ہونے والے تھے۔ اس دورے میں مودی نے یہ بھی کہا کہ جب تک بنگلادیش میں جماعت اسلامی موجود ہے بنگلادیش بنگالیوں کا ملک نہیں بن سکتا اس لیے ’’جماعت اسلامی‘‘ کو ختم کیا جائے۔
اگر بنگلادیش میں پاکستان کی حمایت کرنے والے لوگوں کو جنگی جرائم کی سزا صحیح دی گئی ہے تو مکتی باہنی کے ان لوگوں کو بھی انصاف کے کٹہرے میں لایا جاتا جو پاکستانی بنگالیوں کے قتل عام، ان کے گھروں کو آگ لگانے اور ان کی خواتین کی بے حرمتی جیسے انسانیت سوز جرائم میں نامزد ہیں بنگالیوں سے نفرت اور ان کا نسلی استیصال تو خیر کچھ کم نہ تھا، مگر کیا ہم صرف نسلی امتیاز سے بڑھ کر بھی کسی جرم میں ملوث تھے؟ مجھے اپنے بچپن کا وہ واقعہ یاد ہے جب بنگلادیش کے قیام کے بعد شیخ مجیب الرحمن ڈھاکا کے پلٹن میدان کے جلسے میں اپنی پہلی تقریر کر رہے تھے اس جلسے میں 7لاکھ بنگالی لڑکیاں کالی ساڑھی میں ملبوس شامل تھیں جن کو بے آبرو کرنے کی وجہ شیخ مجیب الرحمن کے مطابق یہ تھی کہ ان بھائی اور باپ مکتی باہنی میں شامل تھے۔ اس میں بہت کچھ غلط بھی ہو سکتا ہے لیکن سب غلط ہونا ناممکن ہے۔ سوال یہ ہے کہ وہ لوگ جن کی ذمے داری بنگالیوں کی جان و مال، عزت و آبرو کا تحفظ تھا، وہ لوگ امانت میں خیانت کیسے کر سکتے تھے؟ اس پر بازپرس ضروری تھی جو نہ ہو سکی۔ لیکن البدر و الشمس بریگیڈ پر لگائے جانے والے الزامات نہ درست تھے اور نہ ہی بنگلادیشی حکومت اور غیر جانب دار میڈیا نے کبھی درست ثبوت پیش کیے یہ سب ہوائی باتیں تھیں۔
بنگلادیش نے پاکستان سے 1974 میں معاہدہ کیا تھا کہ وہ جنگی جرائم میں شامل کسی پاکستانی کے خلاف مقدمہ نہیں قائم کرے گا، لیکن جن پر مقدمہ بنایا گیا وہ تمام لوگ پاکستانی نہیں بلکہ بنگلادیشی شہری ہی رہے۔ کچھ تو اپنی مرضی سے بنگلا دیش میں رہے ا ور کچھ اب بھی بنگلادیش میں اس وجہ سے ہیںکہ پاکستان نے ان کو قبول کرنے سے انکار کر دیا۔
جب ہم میں اتنا حوصلہ نہیں کہ ان کو پاکستان بلا سکیں تو اب ان کے خلاف کارروائی پر پریشان کیوں ہیں؟ حقیقت یہی ہے کہ انصاف ایک ایسا سانچہ ہے جس کی تعریف اکثر سرحدوں کے ساتھ بدل جاتی ہے۔ تاریخ صرف طاقتور اور فاتح کو منصف مزاج سمجھتی ہے۔ بنگالیوں نے اپنا ملک لے لیا تو وہ اپنی مرضی کی عدالتیں بنا کر اپنا فیصلہ کر سکتے ہیں۔ اگر ہم ان کو دبا دیتے تو ان کے قاتلوں کو عدالتوں سے پھانسیاں دلواتے۔ یہی سچائی ہے۔ اور یہ بھی ایک سچائی ہے کہ ’’بھارت اپنے ہر پڑوسی کا دشمن ہے۔ نیپال جیسی کٹّر ہندو ریاست بھی بھارت کی مکاری سے نہیں بچ سکی۔ بھارت نے خطے میں جن جن ممالک سے دوستی کی ہے اس کی پہلی شرط یہ ہے کہ وہ ملک پاکستان سے دوستی نہ کرے۔ ’’سی پیک‘‘ میں بھارت کی شمولیت بھی اس شرط کی وجہ سے نہ ہو سکی اور اب بھارت کے پاس اس کے سوا کوئی راستہ نہیں وہ پاکستان اور بنگلادیش کے درمیان آنے کی کوشش نہ کر ورنہ اس کو اسی طرح ناکامی کا سامنا ہو گا جس طرح آج وہ پو رے سارک میں تنہا گھوم رہا ہے۔