پانچ اگست ایک بار پھر آنے والا ہے‘ اور دنیا خاموش‘ اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل بے بس دکھائی دے رہی ہے گزشتہ ہفتے آئی ایس پی آر نے غیر ملکی میڈیا پرسنز کی ایک ٹیم کو چیری کوٹ سیکٹر کا دورہ کرایا‘ جہاں انہوں نے بھارت کی جانب سے کنٹرول لائن خلاف ورزیوں کا براہ راست مشاہدہ کیا‘ پاکستان نے کنٹرول لائن پر تحمل کی پالیسی اختیار کر رکھی ہے اور کسی بھی شہری کو قانونی دستاویز کے بغیر پار جانے کی اجازت نہیں‘ گزشتہ پانچ سال میں اب تک بھارت نے کنٹرول لائن کی 11815 بار بلاجواز فائرنگ کرکے خلاف ورزی کی ہے گزشتہ ایک برس کے دوران 1697مرتبہ ایسی ہی خلاف ورزیاں کی گئی ہیں جن کے نتیجے میں 14شہری شہید اور 135شہری زخمی ہوئے‘ کنٹرول لائن کے اس جانب جہاں پاکستان آئینی لحاظ سے کشمیر کا محافظ ہے کیونکہ ہم سمجھتے ہیں کہ کشمیر پر حملہ ہم پر حملہ‘ اور دوسری جانب جہاں بھارت فوج قابض ہے‘ دو الگ الگ دنیا آباد ہیں۔
مقبوضہ کشمیر میں گزشتہ ستر سال سے بھارتی فوج اور دہلی سرکار ظلم ڈھا رہی ہے مقبوضہ کشمیر کے ہرشہری کے لیے 8بھارتی فوجی متعین کر رکھے ہیں کنٹرول لائن پر آباد دیہاتوں میں بے شمار ایسے شہری ہیں کہ جو بھارتی فائرنگ کے نتیجے میں عمربھر کے لیے اپاہج اور معذور ہوچکے ہیں‘ غیر ملکی میڈیا نے یہ سب دیکھا ہے‘ اقوام عالم کی توجہ مبذول کرانے کے لیے ان کی ایک لکھی ہوئی سطر اور بولا ہوا ایک لفظ ہی کافی ہے‘ گزشتہ برس پانچ اگست کو بھارتی سرکار نے ایک ظلم ڈھایا تھا کہ کشمیر کی آئینی حیثیت ہی ختم کردی‘ اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل دونوں کشمیریوں کی مقروض ہیں کہ یہ عالمی ادارے کشمیر کو انصاف فراہم نہیں کر سکے‘ سری نگر کے بازار‘ گلیاں اور کھیت کھلیان مظفر وانی‘ عیاد جہانگیر کی چیخوں سے بھرے پڑے ہیں اور پکار رہے ہیں کہ دنیا کب متوجہ ہوگی۔ مسلم دنیا کب جاگے گی۔ سیاسی، سفارتی اور اخلاقی حمایت کب اپنی منزل پائے گی۔ او آئی سی کا کشمیر کے لیے رابطہ گروپ کب انگڑائی لے گا… یہ سوچ سوچ کر ہر کشمیری نفسیاتی مریض بن چکا ہے‘ ہر دن کو سورج طلوع ہوتا ہے اور شام کو غروب ہوجاتا ہے‘ رات کو چاند نکلتا ہے اور آخری پہر اپنی روشنی سورج کے سپرد کرکے غائب ہوجاتا ہے یہ سب تو ہورہا ہے‘ مگر ستر سال ہوگئے ہیں اور دنیا حرکت میں نہیں آئی…
امریکی کانگریس میں مسئلہ کشمیر پر کچھ بات ہوئی ہے‘ حرکت میں برکت ہوتی ہے اس لیے کشمیری اسے اُمید کہہ رہے ہیں‘ طیب اردوان بھی اُمید ہیں اور اہل پاکستان بھی کشمیر کے لیے امید ہیں‘ کانگریس کے نمائندے آسٹیووانکٹر نے اظہار خیال کیا ہے کہ جمہوریت اور جموں کشمیر کی اصل صورتحال یہ ہے کہ وادی میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں جاری ہیں کورونا وائرس کے پھیلائو کے باعث جموں وکشمیر کو مکمل طور پر لاک ڈائون ہے جموں وکشمیر وادی میں انٹرنیٹ کی سروس بند ہے، وہاں پر عوام کا باقی دنیا سے کوئی رابطہ نہیں ہے ہیلتھ کیئر اور موبائل سروس تک دستیاب نہیں ہیں۔ بھارت جھوٹ بول رہا ہے‘ غلط بیانی کر رہا ہے اور دنیا کو دھوکا دے رہا ہے مقبوضہ وادی کشمیر میں بھارتی تسلط ناقابل برداشت حد تک پہنچ چکا ہے انسانی حقوق کی پامالی روزمرہ کا معمول بن گئی ہے مقبوضہ وادی کے عوام گزشتہ ستر سال سے اپنے اس حق خود ارادیت سے محروم چلے آرہے ہیں جن کا وعدہ ان سے اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم سے کیا گیا تھا مقبوضہ کشمیر جہنم میں تبدیل ہوچکا ہے۔ اب مقبوضہ کشمیر میں ایک نیا قانون لایا جارہا ہے جس کے تحت کنٹرول آف بلڈنگ آپریشن ایکٹ 1988ء اور ڈیویلپمنٹ ایکٹ 1970ء میں ترمیم ہوگی مقصد یہ ہے کہ بھارتی فوج کو جو علاقہ مطلوب یا پسند ہو اسے دے دیا جائے اس وقت 21400ہیکٹر بھارتی فوج کے قبضے میں ہے نئے قانون کے تحت کسی بھی نجی، رہائشی یا زرعی علاقے کو بھارتی فوج کے حوالے کیا جاسکتا ہے۔