اقتدار سے پہلے

334

 اقتدار میں آنے سے قبل عمران خان بھی ہر پاکستانی کی طرح پاکستان کے استحکام اور قومی خوشحالی کے بارے میں بہت فکر مند رہا کرتے تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ اقوام عالم میں پاکستان کو ایک باوقار اور محترم مقام میسر آئے، وہ بھی دنیا میں سر اٹھا کر چلیں۔ دنیا ان کا احترام کرے اور ان کے ملک کے نام عزت و احترام سے لیا جائے۔ سماجی رہنما کے طور پر وہ قابل احترام تھے۔ دنیا ان کی سماجی خدمات کا اعتراف کرتی تھی۔ انہوں نے شوکت خانم اسپتال بنا کر عام آدمی کو کینسر جیسے موذی مرض کے علاج کی سہولت فراہم کرکے دنیا کو حیران کردیا تھا۔ اقوام عالم ان کی خدمت کو اچھی اور قابل احترام نظر سے دیکھنے لگی تھی۔ مگر شوکت خانم اسپتال ان کے خواب کی تعبیر نہ بن سکا اس سے عام آدمی کو علاج کی سہولت تو میسر آئی مگر پاکستان میں سدھار اور تبدیلی کے لیے شوکت خانم اسپتال کافی ثابت نہیں ہوا۔ سوچ بچار کے بعد عمران خان نے سیاست کے میدان میں اترنے کا فیصلہ کیا۔ سیاست میں آنے کا ایک ہی مقصد تھا اور وہ یہ تھا کہ قوم کو ایک اچھی زندگی فراہم کی جائے‘ پر تعیش زندگی نہ سہی مگر خوش حال زندگی گزارنے کا حق دیا جائے۔ ملک کو کرپٹ اور بدعنوان حکمرانوں سے نجات دلائی جائے۔ مگر جب وہ سیاست میں آئے تو علم ہوا کہ یہاں تو آوا کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے۔ یہ تو نمک کی کان ہے یہاں جو آیا نمک میں اضافے کا سبب ہی بنا اس کے باوجود عمران خان نے ہمت نہ ہاری وہ سیاسی میدان میں ڈٹے رہے اور بالآخر قسمت نے یاوری کی اور ان کی پارٹی تحریک انصاف الیکشن میں اتنی نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب رہی کہ چھوٹی موٹی جماعتوں سے اتحاد کرکے حکومت بنا سکے۔
وہ وزیر اعظم بن گئے مگر برائے نام۔ وزیر اعظم بننے کے لیے ان کے پاس اکثریت تو کجا سادہ اکثریت بھی نہ تھی۔ یوں ان کی حکومت اتحایوں کی محتاج بن کر رہی گئی۔ وہ ملک اور قوم کی فلاح وبہبود کے بارے میں سوچنے کے بجائے ہمہ وقت اس فکر میں رہنے لگے کہ اگر کسی اتحادی نے بیساکھی ہٹا لی تو وہ دھڑام سے گر پڑیں گے۔ یوں ان کے عزائم بھی اتحادیوں کے رحم وکرم کے محتاج بن کر رہ گئے، وہ قوم کو خوشحالی دینے کے بجائے بدحالی میں مبتلا کرنے کا سبب بن گئے۔ بے روزگاری اور مہنگائی نے قوم کو ادھ موا کردیا۔ وزیر اعظم عمران خان کرپشن کا خاتمہ چاہتے تھے۔ مگر ان کے دور حکومت میںکرپشن میں اضافہ ہوگیا۔ آج کل شجرکاری کی مہم جوبن پر ہے مگر کوئی یہ نہیں سوچ رہا ہے کہ یہ شجر کاری تو ہرسال ہوتی ہے۔ دور جانے کی ضرورت نہیں گزشتہ سال جو شجرکاری ہوئی تھی اس کا کیا ہوا ہے…؟ جو درخت لگائے گئے تھے ان کا کیا ہوا…؟ اس کا صاف مطلب ہے کہ گزشتہ سال جو شجرکاری ہوئی تھی وہ کرپشن کی نذر ہوگئی اور امسال جو شجرکاری ہوگی اس کا بھی یہی انجام ہوگا۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ وزیر اعظم عمران خان شجرکاری مہم پر کنٹرول نہ کرسکے دیگر معاملات پر کیسے قابو پاسکیں گے۔ قومی المیہ یہی ہے کہ منصوبے تو بہت بنائے جاتے ہیں مگر ان پر عمل درآمد نہیں ہوتا ملک میں کوئی ایسا ادارہ کوئی ایسا میکنزم ہی نہیں جو یہ دیکھ سکے کہ جو منصوبہ بنایا گیا ہے اس پر عمل درآمد ہورہا ہے یا نہیں۔
شجرکاری کی مہم ہر سال بڑے خوش وخروش سے شروع کی جاتی ہے اور پھر یہ جوش وخروش چائے کی پالی میں اٹھائے گئے طوفان کی مانند ٹھنڈا ہوجاتا ہے۔ کسی کو یہ توفیق نہیں ہوتی کہ معلوم کرے کہ گزشتہ شجر کاری مہم کے دوران جو پودے لگائے گئے تھے ان کا انجام کیا ہوا؟۔ بس روٹین کے مطابق ہر سال شجرکاری مہم کے ذریعے کرپشن کو فروغ دیا جاتا ہے۔ گزشتہ سال بھی عمران خان کی وزارت عظمیٰ کی جانب سے شجر کاری کی مہم چلائی گئی تھی کیا وزیر اعظم عمران خان یہ جاننے کی زحمت گوارہ کریں گے کہ جو پودے لگائے گئے تھے ان کا کیا ہوا۔ اگر شجرکاری مہم سے پہلے گزشتہ سال کی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے تو علم ہوگا کہ یہ مہم بھی کرپشن کا ذریعہ ہے اور ہر حکومت اس کے ذریعے مال بناتی ہے دوستوں اور عزیزوں کو نوازتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کب تک قومی خزانہ ایسی مہم جوئی پر خرچ ہوتا رہے گا۔ کاش وزیر اعظم عمران خان کوکوئی سمجھاتا کہ منصوبہ بنانا اور منصوبے پر عمل درآمد کرانا دو الگ الگ باتیں ہیں۔