فلسفہ قربانی و احکام

211

مفتی محمد یوسف کشمیری

قربانی قُرب سے ہے۔ قُرب کے معنیٰ ہیں قریب ہونا۔ بندے اور اللہ کے درمیان سُستیوں، لاپرواہیوں اور غفلتوں کی وجہ سے فاصلے بڑھ جاتے ہیں۔ ان فاصلوں کو سمیٹنے کے لیے اللہ کی راہ میں قربانی پیش کرنے سے بندے کی اپنے رب سے دوریاں قربت میں بدل جاتی ہیں۔ اسی لیے اس کو قربانی کہا جاتا ہے۔ اس عمل میں مالی عبادت شامل ہے۔ اللہ کا قرب حاصل کرنے کے ذرائع میں سے قربانی ایک بہت مختصر ذریعہ ہے۔ واضح رہے قربانی کرنے والے کے لیے بھی شرائط ہیں اور قربانی کے بھی شرائط ہیں۔ قربانی کرنے والے کو اپنے گریبان میں جھانکنا چاہیے۔ جب ہم جانور خریدنے کے دوران اس کے عیوب تلاش کر رہے ہوتے ہیں اور اس کے نقائص پر نظر رکھتے ہیں، تو اس سے پہلے ہم اپنے گریبان میں جھانکیں، اپنے عیوب تلاش کریں۔ اپنی کمی کوتاہیوں پر غوروفکر کریں۔ جس طرح اللہ کا قرب حاصل کرنے کے لیے صحیح سلامت، بے عیب جانور اللہ کے حضور پیش کرنا ہے۔ اسی طرح بندے کو خود بھی رب کے حضور پیش ہونا ہے۔
بلا شبہ عمل کی بنیاد اخلاص پر ہے۔ عمل چھوٹا ہو یا بڑا، ظاہری ہو یا خفی، ہر طرح کے عمل کے لیے نیت خالص ہونی چاہیے۔ دین کا دارومدار بھی نیت پر ہے۔ اسی طرح قربانی کے لیے جس مال سے ہم جانور خریدتے ہیں، وہ مال پاک ہونا چاہیے۔ قرآنِ حکیم میں اللہ رب العزت نے انبیائے کرام کو حکم دیا کہ پاکیزہ چیزیں کھائیں اور نیک عمل کریں۔ (سورۃ المومنون:51) نبی کریمؐ نے فرمایا: اللہ خود پاک ہے اور پاکیزہ چیز ہی پسند کرتا ہے۔ (مسلم) قرآنِ حکیم میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ’’اللہ کی راہ میں گندا، ناپاک، حرام مال خرچ کرنے کا ارادہ نہ کرو۔ اگر کوئی ناپاک، گندا یا ناکارہ مال تم کو دے تو تم کھلی آنکھوں کے ساتھ کبھی نہیں لو گے‘‘۔ (سورۃ البقرۃ: 267) اسی طرح عقیدے کا درست ہونا بھی بنیادی شرائط میں سے ایک ہے۔ عقیدے کا شرک، بدعات و خرافات سے پاک ہونا اولین شرط ہے۔
جہاں تک قربانی کے جانور میں عیوب یا نقائص کی بات ہے تو رسول اللہؐ نے فرمایا کہ چار قسم کے جانور یا جس جانور میں چار عیب ہوں اس کی قربانی درست نہیں۔ جانور لنگڑا ہو یا لنگڑا پن واضح ہو۔ بیمار جانور ہو، کھا پی نہیں سکتا، چل نہیں سکتا، شدید بیمار ہے اس کی قربانی جائز نہیں۔ (ابو دائود) البتہ معمولی مرض ہو تو جائز ہے۔ جیسا کہ جانور کو پیچس لگ جاتے ہیں۔ نمونیا ہو جاتا ہے اور کپکپی طاری ہو جاتی ہے۔ یہ معمولی عیب ہے اس میں قربانی درست ہے۔ اسی طرح کانا یا بھینگا جانور، جس کا کانا یا بھینگا پن بالکل واضح ہو تو ایسے جانور کی قربانی سے بھی منع کیا گیا ہے۔ بوڑھے جانور کی قربانی بھی درست نہیں۔ اسی طرح ٹوٹے ہوئے سینگ یا کٹے ہوئے کان والے جانور کی قربانی بھی درست نہیں ہے۔ البتہ معمولی سینگ ٹوٹا ہو یا کان میں معمولی کٹ لگا ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ عیب واضح ہونا ضروری ہے۔ واضح رہے خسی جانور کی قربانی جائز ہے۔ رسول اللہؐ نے جو مینڈھے قربان کیے تھے، دونوں خسی تھے۔ (ابو دائود) اسی طرح حاملہ جانور کی قربانی کو بھی جا ئز قرار دیا گیا ہے۔ صحیح مسلم میںہے کہ نبیؐ نے فرمایا: آپ مسنہ جانور (دو دانت والا) ذبح کریں۔ صحابی رسول جنہوں نے نماز عید سے پہلے جانور ذبح کرلیا تھا، جب رسول اللہؐ نے ان کو دوسرا جانور ذبح کرنے کا کہا، تو وہ نبی کریمؐ کے پاس آئے کہ میرے پاس مسنہ جانور رکھا ہوا تھا اور وہ میں ذبح کرچکا ہوں۔ اب میرے پاس ایک ایسا جانور ہے جو مسنہ تو نہیں لیکن وہ ساخت میں دو بکریوں کے برابر ہے۔ آپؐ نے فرمایا کہ آپ ذبح کرلو، آپ کے سوا کسی کے لیے جائز نہیں۔ (بخاری) اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ مسنہ جانور کی قربانی کرنی چاہیے۔ البتہ دنبہ، بھیڑ یا مینڈھے کے لیے مسنہ کی شرط نہیں، ان کے لیے جوان ہونا شرط ہے۔ اللہ تعالیٰ سے بہتر اور قابل قبول عمل کی توفیق مانگتے رہنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ ہماری قربانی اور نیک اعمال قبول فرمائے۔ آمین