پاک چین عسکری تعاون سود مند ہوگا؟

415

وقت اور حالات کے ساتھ بہت سارے مشکل فیصلے کیے بغیر ترقی کی منازل کبھی طے نہیں ہو سکتیں لیکن ایسا کرنے کے لیے خود اپنے آپ کا بہر لحاظ مضبوط و مستحکم ہونا بہت ضروری ہوتا ہے۔ پاکستان اپنے قیام کے ساتھ ہی بہت سارے فیصلے نہایت مضبوطی کے ساتھ اسی لیے نہیں کرپایا کہ خود پاکستان کسی بھی لحاظ سے ایک مستحکم ملک نہ تو اپنے وجود کے فوراً بعد سے تھا اور نہ ہی بعد میں اپنے آپ کو مستحکم کر سکا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ غیر ممالک کا دست نگر بن کر رہنے اور اپنی ضرورتوں کو دنیا بھر کے بینکوں سے قرضے لیکر پوری کرنے پر مجبور رہا۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ چین پاکستان کے لیے ایک بہترین دوست ثابت ہوتا رہا ہے لیکن اگر پاک چین دوستی کا دیانتداری سے تجزیہ کیا جائے تو یہ دوستی کافی حد تک یک طرفہ ہی رہی ہے۔ اگر پاکستان اور چین کی دوستی تا حال برقرار ہے اور حالیہ چند برسوں سے دونوں ممالک میں قربتیں تیزی کے ساتھ بڑھتی ہوئی نظر آنے لگیں ہیں تو اس قربت کو بڑھانے میں زیادہ تر حصہ چین ہی کا رہا ہے۔ پاکستان کی خارجہ پالیسی ہی نہیں داخلہ پالیسی بھی تا حال امریکا ہی سے قریب تر رہی ہے۔ یہاں یہ بات بھی خوب سمجھ لینے کی ہے کہ امریکا اور چین اب تک کی تاریخ میں کبھی ایک دوسرے کے اچھے دوست نہیں رہے ہیں اور موجودہ صورت حال تو اور بھی کشیدہ تر ہو کر رہ گئی ہے۔ امریکا اور چین کی کشیدگی اب اس حد تک بڑھ چکی ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان اگر باقائدہ جنگ نہ بھی ہوئی تب بھی دونوں ممالک ہر میدان میں ایک دوسرے کو زیر کرنے اور ہر طرح ایک دوسرے کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرتے نظر آئیں گے۔ اس کشیدگی کا دنیا پر کسی صورت اچھا اثر پڑتا نظر نہیں آرہا اور خصوصاً وہ ممالک جو امریکا کے اتحادی رہے ہوں، وہ اگر اپنی خارجہ اور کسی حد تک داخلہ پالیسیاں تبدیل کرنے کی کوشش کریں گے تو امکان اسی بات کا ہے کہ وہ نقصانات کی زد میں ضرور آئیں گے۔
پاکستان اس وقت ایک ایسا ملک ہے جو بیک وقت امریکا اور چین کے لیے بڑی اہمیت رکھتا ہے۔ ماضی میں بھی روس اور بھارت کی بڑھتی ہوئی قربت کی وجہ سے امریکا کی نظر میں پاکستان کی جغرافیائی پٹی بہت اہم رہی تھی اور وہ افغانستان سمیت پاکستان کی جغرافیائی پٹی کو دونوں ممالک کے درمیان بہر صورت برقرار رکھنا چاہتا تھا۔ آج بھی چین کی بڑھتی ہوئی اقتصادی قوت کے پیش نظر وہ شاید اس بات کو کبھی گوارہ نہ کر سکے کہ چین پاکستان میں اپنی راہداریاں بنا کر اپنے آپ کو مزید مستحکم کرنے کے بعد امریکا کے لیے دشواریوں میں اضافہ کر سکے۔ پاکستان اپنی جغرافیائی اہمیت کو سمجھ لینے کے باوجود بھی آج تک اپنے لیے وہ فوائد حاصل نہیں کر سکا جتنے فوائد وہ حاصل کر سکتا تھا۔ وجہ اس کی یہ رہی کہ پاکستان کسی کا بھی پوری طرح نہ بن سکا اور ہمیشہ دو کشتیوں میں پاؤں رکھنے کی کوشش میں مصروف رہا۔ تازہ ترین خبروں کے مطابق چین نے خطے کا امن و استحکام برقرار رکھنے کے لیے پاکستان کے ساتھ عسکری تعلقات مزید مضبوط بنانے کی خواہش کا اظہار کیا ہے۔ چین کے دفاعی اتاشی میجر جنرل چین وین ونگ نے وفد کے ہمراہ پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کا دورہ کیا۔ چینی وفد نے دورہ چین کی پیپلز لبریشن آرمی کے قیام کی93 ویں سالگرہ کے موقع پر کیا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پاک چین عسکری تعاون پاکستان کے لیے ایک خوش کن خبر ہے لیکن جن حالات میں چین پاکستان سے عسکری تعاون کے سلسلے میں مزید تعاون کی خواہش رکھتا ہے کیا وہ حالات پاکستان کے لیے سود مند ہیں یا یہ بھی ان ہی حالات کے سے ہیں جیسے ضیا الحق اور پرویز مشرف کے دور میں تھے اور امریکا کو افغانستان میں مداخلت کے لیے پاکستان کا تعاون درکار تھا۔
پاکستان کی عسکری قوت ہو یا حکومت وقت، دونوں کو اس بات کا علم خوب اچھی طرح ہونا چاہیے کہ امریکا کو اب بھی پاکستان کی پہلے جیسی ہی ضرورت ہے اور یہ بھی کہ وہ کسی بھی صورت میں پاک چین دوستی کے فروغ کو برداشت نہیں کر سکے گا۔ ہم امریکا کے زر خرید تو نہیں لیکن کیا اتنے مضبوط و مستحکم ہیں کہ اس کے رد عمل کو برداشت کر سکیں؟۔ کسی بھی قسم کے رد عمل کی صورت میں ہمیں اقتصادی سہارے سے لیکر دفاعی نظام کے سہارے تک، سارا کا سارا انحصار چین پر کرنا پڑے گا جو کنوئیں سے نکل کر کھائی میں گرنے جیسا بھی ہو سکتا ہے۔ اس ساری صورت حال کو سامنے رکھتے ہوئے پاکستان کو ہر فیصلہ بہت ہی سوچ سمجھ کر کرنا ہوگا ورنہ خدا نخواستہ پاکستان سینڈوچ بھی بنایا جا سکتا ہے۔ جس ملک کی حکومت ہی کو استحکام حاصل نہ ہو اور اہم فیصلے بلا شرکتِ غیرے اسلام آباد کے بجائے راولپنڈی میں کیے جاتے ہوں، اس ملک کو ویسے بھی ہر قدم بہت ہی سوچ سمجھ کر اٹھانے کی ضرورت ہے۔ یہ نکتہ بہر صورت دھیان میں رکھنے کی ضرورت ہے ورنہ ٹھوس نتائج کا سامنے آنا انہونی تو ہو سکتا ہے ہونی کسی صورت بھی نہیں ہو سکتا۔