نقشے اور نقشے بازیاں مسئلہ کشمیر کا حل نہیں

468

فیصلوں کا درست اور غلط ہوجانا ایک الگ بات ہے لیکن ان کا بروقت ہونا ہی درست ہوا کرتا ہے۔ سانپ گزر جانے کے بعد لکیر پیٹنے کا کبھی کوئی فائدہ ہوا ہے اور نہ ہی سانپ مرا ہے۔ 5 اگست 2019 اور 5 اگست 2020 میں پورے 365 دنوں کا فرق ہے اس لیے میں پورے وثوق کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ جمعے کے جمعے، ہر کام کو چھوڑ کر آدھے آدھے گھنٹے کھڑے ہونے، سال بہ سال ایک منٹ کے لیے خاموشی اختیار کرنے اور نقشے کی نقشے بازی کرنے سے نہ تو کشمیر فتح ہو سکتا ہے اور نہ ہی کشمیریوں کی داد رسی کی جا سکتی ہے۔ اْدھر بھارت کشمیر پر فوج کشی کر رہا تھا اور اِدھر کشمیری سرحد کے اس پار بسنے والے بھائی بہنوں کی مد کے لیے کنٹرول لائن کے اُس طرف جانے کے لیے تڑپ رہے تھے تو ہمارے حکمران مدد کے لیے جانے والے کشمیریوں کو سختی کے ساتھ منع کر رہے تھے کہ کوئی ایک آزاد کشمیری مقبوضہ کشمیر میں داخل نہیں ہوگا۔ ایک جانب غیرت مند نہتے کشمیریوں کا یہ جذبہ جنون تھا کہ وہ کٹ مرنے کے لیے تیار تھے تو دوسری جانب بے حسی کا یہ عالم تھا کہ قربانی کا جذبہ رکھنے والوں کو اعلیٰ سطح پر دھمکیاں دی جا رہی تھیں۔ کشمیریوں کے جذبات کو اگر نظر انداز کر بھی دیا جائے تو ہر غیرت مند اپنی زبان سے نکلے ہوئے ایک ایک لفظ کا پاس دار ہوا کرتا ہے اور اپنے ایک ایک لفظ کے لیے وہ خون کا آخری قطرہ تک بہانے کے لیے تیار ہوجاتا ہے لیکن ایک جانب اقوامِ عالم کے سامنے کشمیر کے لیے دھواں دار تقریر کی گونج اور دھمک بھی ختم نہیں ہوئی تھی کہ بھارت کی فوج کشی کے ساتھ ہی یہ بھید کھلا کہ وہ تقریر ہوا بھرا ایک غبارہ تھی جو پھٹ گیا اور وہ بھی کوئی دھماکا کیے بغیر۔ وہ سارے جذبات سے بھرے الفاظ بے حسی کی تصویر بن گئے اور زبان سے اگلنے والے شعلے گل و گلزار بن گئے۔ ایک جانب بھارت کشمیریوں کے لاشے پر لاشے گرا کر اپنے خونیں پنجے پوری وادی پر گاڑتا چلا گیا تو دوسری جانب سے یہی کہا جاتا رہا کہ اگر بھارت نے اْس کشمیر پر جو پاکستان کے زیر تسلط ہے، پیش قدمی کی تو ہم ’’دفاع‘‘ کرنا خوب اچھی طرح جانتے ہیں۔ باالفاظِ دیگر بھارت کو یہ پیغام دیا گیا کہ جس پر آپ 72 سال سے ظلم و ستم کے پہاڑ توڑتے رہے ہیں وہ پہلے بھی آپ ہی کا تھا اور اب تو پکا پکا آپ کا ہوگیا۔
سنا ہے کہ حکومت پاکستان نے پاکستان کا ایک نیا نقشہ بنا لیا ہے جس میں ’’پورا کشمیر‘‘ دکھایا گیا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سروے آف پاکستان کا 1947 والے کشمیر میں اور اب والے کشمیر کے نقشے میں کیا کوئی فرق ہے؟۔ جو کشمیر 1947 کے نقشے میں تھا اس میں تبدیلی کیوں، کب اور کس طرح ہوئی تھی اور اس تبدیلی کی ذمے دار آخر کون کون سی حکومت اور کون کون سے ادارے رہے تھے، کیا اس کا کوئی جواب اہل پاکستان کو دیا جائے گا۔ حال ہی میں شائع ہونے والا نقشہ بھی اپنی جگہ بہت ساری وضاحتیں طلب کرتا ہوا نظر آتا ہے۔ نیا شائع ہونے والا نقشہ موجودہ نقشے سے اس لحاظ سے بہت مختلف ہے کہ اس میں کشمیر کا ایک بہت بڑا حصہ جو جزوِ پاکستان بنا لیا گیا تھا وہ واپس وادی کشمیر میں شامل دکھایا جا رہا ہے جس کا صاف صاف مطلب اس کے علاوہ اور کچھ نہیں کہ 1947 کے نقشے میں دکھائی جانے والی مکمل وادی کشمیر، کشمیر تسلیم کرنے کے بعد پاکستان اپنے ہی بہت بڑے کشمیر کو پاکستان میں شامل کرنے کے دعوے سے منحرف ہو گیا ہے جبکہ بھارت نے کشمیر کی مقبوضہ وادی کو قانونی طور پر بھارت میں ضم کر لیا ہے۔ گلگت، بلتستان اور اسکردو جو ایک عرصہ دراز سے پاکستان کے بین الاقوامی نقشے میں پاکستان کی حدود میں شامل تصور کر لیے گئے تھے، نئے نقشے میں وہ سب وادی کشمیر میں شامل دکھانے کا مقصد عقل و سمجھ سے بالکل ہی ماوریٰ اور ناقابلِ فہم ہے۔ کیا یہ ایک بین الاقوامی سازش میں شراکت ہے یا سہواً ایسا کیا گیا ہے، اس کی وضاحت بہت ہی ضروری ہے۔
اس تمام صورت حال کو سامنے رکھا جائے تو جماعت اسلامی سمیت، ہر مذہبی جماعت اور پاکستان کے عوام کی یہ بات بالکل درست لگتی ہے کہ کشمیر کو آزاد کرانے کے لیے نہ تو کھڑے ہو کر، نہ خاموش رہ کر، نہ اظہار یکجہتی کے طور پر یوم سیاہ و سفید منانے اور نہ نقشے بنا کر نقشے بازی کرنے سے کوئی کام چلے گا اور نہ اقوام متحدہ میں جذباتی تقریریں کشمیریوں کو آزادی دلا سکیں گی۔ جہاد ہی وہ واحد راستہ ہے جو کشمیریوں کو بھارتی مظالم سے باز رکھ سکتا اور آزادی دلا سکتا ہے۔ آج کا جسارت تمام ایسی سرخیوں سے بھرا پڑا ہے جو قوم کے دلوں کی ترجمان ہیں۔ امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے درست کہا ہے کہ جہاد ہی وہ واحد راستہ ہے جو کشمیریوں کو آزادی دلا سکتا ہے۔ سید صلاح الدین نے صاف صاف کہہ دیا ہے کہ یومِ سیاہ و سفید کی نہیں اعلان جہاد کی ضرورت ہے۔ اسی قسم کے جذبات کا اظہار ہر وہ فرد کرتا ہوا نظر آ رہا ہے جس کے دل میں اللہ اور اس کے رسول کی محبت کا دریا مؤجزن ہے۔ اگر حکومت پاکستان واقعی کشمیر کے سلسلے میں سنجیدہ ہے تو پھر عملی قدم اٹھائے بغیر کچھ حاصل نہیں ہونے والا۔ جنگ سے فرار ویسے بھی شاید ممکن نہیں اس لیے کہ چین اور امریکا کی کشمکش پاکستان کو کسی وقت بھی جنگ میں جھونکتی ہوئی دکھائی دے رہی ہے۔