جماعت اسلامی کی ریلی پر حملہ، انتظامیہ ناکام

347

کراچی میں بدھ کے روز جماعت اسلامی کی کشمیر ریلی پر بم حملہ کرکے یہ ثابت کردیاگیا ہے کہ پاکستان میں اب بھی را کے ایجنٹ موجود اور متحرک ہیں اور کراچی میں ان کے سلیپرز سیل ان ہی گروپوں میں پناہ لیے ہوئے ہیں جن کو پاکستانی حکمرانوں نے اپنی آستینوں میں پالا تھا۔ 5 اگست کو پوری پاکستانی قوم کشمیریوں سے اظہاریکجہتی کررہی تھی یوم سیاہ منایا جارہا تھا۔ جماعت اسلامی کراچی کی ریلی گلشن اقبال سے گزررہی تھی کہ رینجرز و پولیس کی بھاری نفری کی موجودگی کے باوجود موٹر سائیکل سواروں نے بم ماردیا اور سیکورٹی ادارے کچھ نہ کرسکے۔ یہ تو اس بات کی جانب اشارہ ہے کہ اب تک امن قائم کرنے کے جو دعوے کیے گئے تھے وہ سب غلط تھے۔ یا پھر سارے واقعے میں انتظامیہ بھی ملوث ہے۔ جو بھی کچھ ہو امن و امان قائم رکھنا انتظامیہ اور سیکورٹی اداروں کا کام تھا۔ ریلی پر حملے اور کارکنوں کے زخمی ہونے کے باوجود ریلی جاری رہی اور اپنے طے شدہ مقام پر جاکر ختم ہوئی۔ کارکنوں کے جذبے میں مزید اضافہ ہوا اور کارکن زخمیوں کو اسپتال پہنچانے کے بعد پھر ریلی میں شامل ہوئے۔ یہ پاکستان کی تاریخ کاپہلا واقعہ ہے کہ کشمیریوں سے یکجہتی کیلئے نکالی جانے والی ریلی پر حملہ کرکے دو درجن سے زائد لوگوں کو زخمی کردیا گیا اس میں سے ایک رفیق تنولی جمعرات کو خالق حقیقی سے جا ملے۔ ان کے قتل کی ذمہ داری بھی انتظامیہ پر ہی عاید ہوتی ہے۔ امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمن نے حملہ آوروں کو گرفتار کرنے کا مطالبہ کیا ہے بصورت دیگر مشاورت کے بعد ملک گیر احتجاج کیا جائے گا۔ حکومت پاکستان کی کشمیر کے معاملے میں بے حسی نے صورتحال یہاں تک پہنچا دی ہے کہ پاکستان میں کشمیریوں سے یکجہتی کا اظہار کرنے والے محفوظ نہیںیہ تو مقبوضہ کشمیری جیسی صورتحال ہوگئی جہاں کشمیریوں کو اپنے پیاروں کے جنازے کے جلوس نکالنا مشکل ہوتا ہے لیکن وہ کبھی اس سے باز نہیں آتے۔ اسی جذبے کے تحت جماعت اسلامی کراچی کی ریلی بھی جاری رہی۔ 5 اگست کو پورا پاکستان یوم سیاہ منارہا تھا اور کراچی تا خیبر ایک ہی مطالبہ تھا کہ جہاد کا اعلان کیا جائے۔ اگر حکومت پاکستان یہ کام نہیں کرے گی تو جہاد رکنے والا تو نہیں پھر لوگ انفرادی یا گروپوں کی سطح پر جہاد کریںگے یا کوئی بڑا گروپ یہ کام کرے گا اس سے معاملات بگڑنے کا خدشہ ہے لہٰذا حکومت پاکستان کشمیر سے متعلق اپنی ذمے داریاں ادا کرے جہاد کا اعلان حکومت کا حق ہی نہیں فرض ہے۔ حکومت اپنا فرض ادا کرے۔ پاکستانی سینیٹ نے بھی متفقہ قرار داد منظور کرکے بھارت کے 5 اگست کے اقدام کو مسترد کردیا ہے۔ چین نے بھی کشمیر کی حیثیت تبدیل کرنے کے یکطرفہ بھارتی اقدامات کو غیر قانونی قرار دیا ہے۔ کشمیر کے حوالے سے پاکستانی حکومت نے ایک سفارتی کامیابی حاصل کی ہے جس کے نتیجے میں کشمیر پر سلامتی کونسل کا اجلاس طلب کرلیا گیا ہے۔ لیکن اس اجلاس میں پاکستان اگر اپنا موقف موثر انداز میں نہ پیش کرسکا اور سلامتی کونسل کو کشمیر میں استصواب رائے پر قائل نہ کرسکا تو ایسے اجلاس کا کیا فائدہ بلکہ بسا اوقات تو عالمی اداروں کے اجلاس میں پاکستان کے خلاف ہی فضا بن جاتی ہے اس کا سبب پاکستانی مندوبین کی تیاری نہ ہونا یا عدم دلچسپی ہے۔ 5 اگست کو پاکستانی قوم نے ایک بار پھر فیصلہ دے دیا ہے کہ کشمیر بزور شمشیر ہی حاصل کیا جاسکتا ہے۔ کمزوری کے مظاہرے سے قوموں کے وقار و سلامتی کا مسئلہ پیدا کردیتے ہیں۔ جماعت اسلامی کراچی کی ریلی پر حملے کے حوالے سے یہ شک پختہ ہوتا جارہا ہے کہ جو گروپ پہلے بھی را کے لیے کام کرتے تھے ان کے لوگ اب بھی موجود ہیں اور ان کے خاتمے کے دعوے محض دعوے تھے۔ یہ وہی گروپ ہے جو 5 فروری کے یوم کشمیر اور ہڑتال کو غیر موثر بنانے کیلیے کراچی میں چھ سات فروری سے تین تین دن کی ہڑتالیں کرواتا تھا۔ کئی مرتبہ تو یہ لوگ تین فروری سے شہر کے حالات خراب کردیتے تھے تاکہ ساری دنیا میں پاکستان میں بد امنی اور ایک طبقے پر مظالم کا تاثر پیدا ہو اس طرح کشمیر اور کراچی کو وہی گروپ ہمیشہ متوازی کا مسئلہ بنا کر پیش کرتا تھا۔ اسی قسم کے لوگوں نے ایک بار پھر جماعت اسلامی کی ریلی کو نشانہ بنایا ہے۔ انتظامیہ کے افسران کی جانب سے بڑی سرگرمی دکھائی گئی افسران کے دورے ہوئے۔ یقین دہانیاں ہوئیں اور معاملہ ختم۔ اصل معاملہ بھی یہی ہے کہ پاکستان میں مرکز اور صوبوں میں جو لوگ حکمران ہیں کشمیر ان کی ترجیحات ہی میں نہیں ہے۔ جب تک ترجیحات درست نہیں ہوںگی کشمیر کی آزادی کا روڈ میپ تیار نہیں ہوسکے گا۔