محترم اطہر علی ہاشمی صاحب بھی ہم سب کو روتا چھوڑ گئے۔ میری ان سے آخری گفتگو 2 اگست کی رات دس بجکر 50 منٹ پر 13 منٹ 19 سکینڈ کی ہوئی۔ ہاشمی صاحب میرے لیے ایک ایسے رہنما تھے جو مجھے ہمیشہ اردو کے الفاظ، تلفظ اور ان کی ادائیگی کا طریقہ بتاتے رہتے تھے۔ بات کوئی بھی ہورہی ہو وہ میری غلطیوں کی اصلاح فوری کیا کرتے تھے اس کی وجہ شاید یہ ہو کہ وہ اردو سے محبت نہیں عشق کیا کرتے تھے۔ اردو کے غلط العام الفاظ کو درست کرنے کے لیے وہ ہفت روزہ فرائڈے اسپیشل میں ’’خبر لیجیے زباں بگڑی‘‘ کے عنوان سے مسلسل کالم لکھا کرتے تھے۔ جبکہ روزنامہ جسارت میں بھی وہ ’’بین السطور‘‘ کے عنوان سے کالم لکھا کرتے تھے۔ ان کی تحریریں قارئین میں بہت مقبول تھیں۔
عید کے دوسرے روز جب ان سے بات ہورہی تھی تو انہوں نے گفتگو کے دوران خودکش حملے کے حوالے سے میری تصحیح کی اور کہا کہ خود کَش نہیں خود کُش ہوتا ہے یعنی ش پر زبر نہیں پیش ہے۔ اطہر ہاشمی جیسے استاد اب شاید ہی کوئی مجھے دستیاب ہو۔ محترم ہاشمی صاحب ایک مکمل صحافی تھے۔ وہ آخری وقت تک جسارت کے چیف ایڈیٹر رہے، صحت کی خرابی کے باوجود وہ رات ڈھائی بجے تک فرائض انجام دیا کرتے تھے اور اخبار کا حتمی صفحہ دیکھ کر ہی گھر کے لیے روانہ ہوا کرتے تھے۔ 74 سال کی عمر میں بھی میں نے کسی صحافی کو اخبار کے لیے اتنی محنت کرتے نہیں دیکھا۔ میں ان سے کہا کرتا تھا کہ ’’سر آپ اتنی دیر تک بلکہ فائنل کاپی دیکھ کر کیوں جایا کرتے ہیں جبکہ ایڈیٹر صاحب تو ٹھیک بارہ بجے ہی رخصت ہوجاتے ہیں جبکہ آپ چیف ایڈیٹر ہیں اس کے باوجود اس قدر وقت دفتر کو دیا کرتے ہیں؟‘‘ جواب میں ہاشمی صاحب مسکراتے ہوئے لب کشائی کرتے ’’میاں صبح اخبار پڑھ کر اغلاط یا غلطی پر شرمندہ ہونے سے بچنے کے لیے میں ایسا کرتا ہوں‘‘۔ جو میری آخری گفتگو ہوئی اس میں بھی میں نے آخری وقت تک دفتر میں کام کے حوالے سے ذکر کیا اور کہا کہ ’’سر اب بھی آپ نے اپنی روٹین برقرار رکھی ہوئی ہے حالانکہ اب تو آپ کو صحت کی خرابی کی وجہ سے گھر چلے جانا چاہیے‘‘۔ فوراً کہا کہ کیوں میاں اب مجھے کیا ہوا، میں نے کہا کہ سر طبیعت کا تقاضا تو یہی ہے، کہنے لگے نہیں میں الحمدللہ بالکل ٹھیک ہوں۔ ہاشمی صاحب ہنستے مسکراتے اور بولتے رہنے والے انسان تھے اگرچہ گفتگو نپے تلے الفاظ کے ساتھ کیا کرتے تھے مگر اکثر ان کی کوشش ہوا کرتی تھی لوگوں سے مسکراتے ہوئے اظہار خیال کریں، خوش اخلاقی ان کی زندگی کا خاصا تھی۔ کچھ عرصہ قبل جب اچانک ان کی طبیعت کو بگڑتا ہوا دیکھ کر دفتر کے ساتھیوں نے انہیں اسپتال پہنچایا تو ہر خیریت دریافت کرنے والے کو وہ یہی جواب دیا کرتے تھے کہ ’’مجھے تو کچھ نہیں ہوا، بس ان لوگوں کو شبہ تھا کہ مجھے کچھ ہورہا ہے اور یہ اسپتال لے آئے‘‘۔
اطہر ہاشمی صاحب دینی گھرانے سے تعلق تھا ان کے چھوٹے بھائی راحت علی ہاشمی دارالعلوم کراچی کے استاد ہیں۔ وہ اپنے چھوٹے بھائی راحت علی ہاشمی صاحب کا ذکر بھی بھرپور محبت و شفقت سے کیا کرتے تھے۔ ایک بار انہوں نے بتایا کہ ’’وہ تو میرا بہت چھوٹا بھائی ہے، بس مولوی ہوگیا ہے‘‘۔
میں چونکہ اپنی فالج کی بیماری کا فائدہ اٹھا کر روزانہ دفتر نہیں جاتا لیکن جب بھی دفتر گیا میری کوشش ہوتی تھی کہ ہاشمی صاحب کے ساتھ ہی گھر کے لیے روانہ ہوں ’’جس کا مقصد ان سے سیر حاصل اور سبق آموز گفتگو کرنا ہوتی‘‘۔ میں ہمیشہ ہر معاملے پر محترم ہاشمی صاحب سے مشورہ کرتا تھا وہ میرے بہترین رہنما بھی تھے۔ ان سے ذاتی نوعیت کی باتیں بھی میں کرلیا کرتا تھا۔ انہوں نے میری بیٹی فبہا کی شادی میں بھی مصروفیت کے باوجود خصوصی طور پر شرکت کی تھی۔
پیارے اطہر ہاشمی صاحب آپ مجھے ہی کیا بہت سارے دوستوں کو بہت یاد آئیں گے بلکہ شاید میں آپ کو کبھی بھی بھلا نہ سکوں، اس لیے کہ آپ میری خبروں پر حوصلہ افزائی کرنے، خبروں کی اہمیت کو سمجھنے والے اور خبروں پر تبصرہ کرنے والے بھی واحد تھے۔ ہاشمی صاحب آپ کے بناء اس بیماری کے باوجود میں کس طرح اپنی صحافت جاری رکھ سکوں گا اور سچ تو یہ ہے کہ اب میرا مزید جینا مشکل نظر آتا ہے۔ ابھی چند روز قبل تو آپ نے مجھ سے کہا تھا کہ ’’ذکر مت کرنا میں تمہارے لیے بہت دعائیں کرتا ہوں‘‘۔ میرے لیے دعائیں کرنے والے ہاشمی صاحب آپ چلے گئے اور میں اپنی بیماری کی وجہ سے آپ کو کاندھا تک نہیں دے سکا، مجھے معاف کردیجیے گا۔ ہاشمی صاحب ہم سب کو روتا چھوڑ کر رخصت ہوگئے، آپ 74 سال کے تھے لیکن کئی صدیوں کا سبق ہمیں پڑھا گئے، اللہ آپ کو کروٹ کروٹ جنت الفردوس میں جگہ عنایت فرمائے اور آپ کے درجات بلند کرے، آمین ثم آمین