نقشے بازی نہ کریں تو کیا کریں مغربی دنیا، یورپ اور امریکا ہمارے ساتھ نہیں، اقوام متحدہ ایک آدھ ڈھیلے ڈھالے مذمتی بیان سے آگے نہیں بڑھتا، رہی او آئی سی وہ مذمتی بیان کے لیے بھی تیار نہیں، سعودی عرب ہماری طرف سیدھی آنکھ سے دیکھنے کے لیے تیار نہیں، جہاد کی ہمیں عادت نہیں رہی ایسے میں نقشے نہ بنائیں تو کیا کریں۔ ’’ہم جنگ افورڈ نہیں کرسکتے‘‘، ’’تو کیا جنگ کرلیں‘‘۔ ’’اور اگر جنگ الٹی پڑ گئی تو پھر‘‘۔ اس ذہنیت اور سوچ کے ہوتے ہوئے نقشے اور گانے ہی ریلیز کیے جاسکتے ہیں۔ اس مضحکہ خیز کارکردگی پر سوشل میڈیا کے آئینے میں ہماری قیادت ذرا اپنا چہرہ ملا حظہ فرمائے، پھر کالم کی طرف آتے ہیں:
٭ نئے نقشے کے مطابق بھارت کی نو لاکھ فوج پا کستان میں موجود ہے۔ اب کیا کریں۔
٭ زیادہ بڑا علاقہ، زیادہ بڑا فوجی بجٹ۔
٭ وہ چاہتا تو پورے بھارت کو نقشے میں شامل کرسکتا تھا لیکن چونکہ پاکستان کے توسیع پسندانہ عزائم نہیں ہیں اس لیے صرف کشمیر پر اکتفا کیا۔
٭ نقشہ بنوالو، گانا ریلیز کروالو، ندی نالے صاف کروا لو لیکن ہم جنگ نہیں کریں گے۔
٭ کیا اے سی کا نقشہ بناکر دیوار پر لگا دینے سے میرا کمرہ ٹھنڈا ہو جائے گا۔
٭ وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ کشمیر کا مسئلہ ہر فورم پر اٹھا ئیں گے، عالمی برادری اپنا وعدہ پورا کرے (ورنہ ہم اگلے سال تک نقشے میں صرف کشمیر تک محدود نہیں رہیںگے دہلی کو بھی شامل کرلیںگے)
٭ سلیکٹرز گروپ کی نئی پیشکش: سلیکٹڈ حکومت کے بعد سلیکٹڈ نقشہ
٭ اگر نقشہ بدلنے سے کچھ نہیں ہورہا تو ایک بار نشہ بدل کر دیکھو
٭ کشمیر تمہارا نقشہ ہمارا
٭ کشمیر پر نیا ترانہ اپنے ساتھ ایٹمی ہتھیار لے جا نے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے۔
٭ کشمیر پر افواج پاکستان کی طرف سے نیا گانا ریلیز ہوتے ہی انڈین فوج کشمیر سے بھاگنے لگی۔ حکومت پاکستان نے اسلحہ کی خریداری کے آرڈر کینسل کرکے ڈھول، ہارمونیم اور باجے خریدنے کے آرڈر دے دیے۔
٭ طالبان نے امریکی وزیرخارجہ سے کہا افغانستان سے نکل جائو ورنہ ہم تمہارا وہ حشر کریں گے کہ امریکا کی آئندہ آنے والی نسلیں بھی یاد رکھیں گی اور۔۔ اور۔۔ اور۔۔ اور اس کے بعد طالبان نے پاکستان کی آئی ایس پی آر کی جانب سے ریلیز کیا گیا گانا ’’جا چھوڑ میری وادی‘‘ لگا دیا۔ مائیک پومپیو کانفرنس سے بھاگنے پر مجبور ہوگیا۔
٭ زندگی میں یہ ہنر بھی آزمانا چاہیے
جنگ کے بجائے ناچ گانا چاہیے
٭ یہ نقشہ بازیاں اور گانے بھاگنے اور ہتھیار ڈالنے کا عمل ہے جس کے ہم پرانے عادی ہیں۔
٭ گانے جیسے مہلک ہتھیار سے اللہ محفوظ رکھے۔
٭ بھارت سے جنگ کرنی ہے میرا طبلہ کہاں ہے۔
بین الاقوامی سطح پر ایسے اقدامات کوئی معنی نہیں رکھتے۔ حکومت عوام کو خوش کرنا چاہتی ہے تو عوام کے کمنٹس بھی آپ نے ملاحظہ کر لیے۔ 1971 سے پہلے پاکستان ریاست جونا گڑھ کو بھی سیاسی نقشے کا حصہ دکھاتا تھا۔ 1971 تک مشرقی پاکستان بھی ہمارے نقشے کا حصہ تھا۔ آپ مشرقی پاکستان کو بنگلا دیش بننے سے روک سکے نہ جونا گڑھ پر رتی برابر پیش رفت کرسکے۔ اب مقبوضہ کشمیر کو نقشے میں شامل کرکے کیا حاصل کرلیں گے۔ نقشے بنائے جاسکتے ہیں، گانے گائے جاسکتے ہیں لیکن ان نقشوں اور گانوں میں کیے گئے دعووں کو حقیقت شجاعت اور دلیری بناتی ہے۔ شاعر کو ایک مصرع تر کے لیے جگر خون کرنا پڑتا ہے، ہم خون بہائے اور جنگ کیے بغیر بھارت سے کشمیر حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ انتقام کی آگ میں سلگتے ہوئے بھارت سے ان لا حاصل حرکتوں سے کیا حاصل کیاجاسکتا ہے۔ تاریخ کے کٹہرے میں گانے اور نقشے قبول نہیں کیے جاتے۔
نریندر مودی نے 5اگست 2019ء کو ایک طرف کشمیری عوام کو بھارتی آئین کے بندھن سے آزاد کردیا دوسری طرف پاکستان کو چیلنج کردیا کہ جس کو ہوجان ودل عزیز میری گلی میں آکر دکھائے۔ ہم نے ثابت کردیا کہ ہمیں جان ودل عزیز ہی نہیں عزیز تر ہیں۔ یہ نقشہ اور گانا نہیں پاکستانی افواج اور خارجہ پالیسی کی ناکامی کا ڈھول ہے جو ہم گلے میں ڈال کر بجا رہے ہیں اور خوش ہورہے ہیں کہ اس غیرت ناہید کی ہرتان ہے دیپک۔ کشمیر کے باب میں ہماری حکمت عملی اور خارجہ پالیسی کی تان عالمی برادری اور اقوام متحدہ پر آکر ٹوٹتی ہے۔ وہ اقوام متحدہ جہاں کوئی بھی مستقل رکن کشمیر کی قرارداد کو ویٹو کرسکتا ہے وہ عالمی برادری جو یہود ونصاری پر مشتمل ہے۔ مسلمانوں کی بدترین دشمن۔ سعودی عرب بھارت سے قریب اور پاکستان سے دور۔ تین سال کا تیل کا معاہدہ ایک سال میں ختم۔ ایک ارب ڈالر بھی کھڑے کھڑے وصول۔ متحدہ عرب امارات نے بھی گزشتہ برس کشمیر کو بھارت کا اندرونی معاملہ قراردے کر چپ سادھ لی۔ ایک برس ہوگیا اقوام متحدہ نے کوئی جنبش کی، نہ عالمی برادری کے موقف میں کوئی فرق آیا، مسلم امہ کے افق پر بھی دور تک روشنی کا نشان نہیں اور پھر خود ہم آخر ایسا کیا کررہے ہیں کہ کوئی ہمارے کاندھے سے کاندھا ملا کر کھڑا ہونے کی زحمت گوارا کرے۔ سوائے کچھ فون کالز گھمانے، تقریریں کرنے، نقشے بازی اورگانا گانے اور ریلیاں نکالنے کے۔
شہ رگ جیسے اہم معاملے کو جو قیادت گانوں پر ٹرخارہی ہو اس قیادت پر باقی معاملات میں کیسے اعتماد کیا جاسکتا ہے۔ جس ملک کے پاس دنیا کے جدید ترین جنگی جہاز، ٹینک، بیلسٹک اور کروز میزائل، آبدوزیں، بحری جہاز، ائر ڈیفنس سسٹم، آرٹلری، ٹیکنیکل اور اسٹرٹیجک نیو کلیئر اسلحہ اور چھ لاکھ دنیا کی بہادر اور ماہر ترین فوج ہو اس کی قیادت نقشے جاری کرنے اور گانا گا نے، کنٹرول لائن پر فوٹو شوٹ کروانے اور کشمیر ہائی وے کا نام سری نگر ہائی وے رکھنے جیسے سطحی اقدام کرے تو دال میں کچھ کالا ہونے کا گمان ہونے لگتا ہے۔ اگر استعمال نہ کیا جائے تو اسلحہ ہو یا دماغ سب کو زنگ لگ جاتا ہے۔ ہمارے مقتدر اداروں کو علم ہوگا کہ اب عام آدمی ان کے بارے میں کیا کہنے لگا ہے، کیا باتیں کرنے لگا ہے۔ تنگ آمد بجنگ آمد والی صورتحال ہے۔ ہمارے مقتدر ادارے ہی ہماری امید ہیں۔ پاکستانی عوام ان سے محبت کرتے ہیں لیکن جب ہر طرف سے ذلیل اور رسوا کیا جارہا ہو اور سول اور فوجی قیادت طاقت ہونے کے باوجود پست حوصلہ اور سر جھکائے کھڑی ہو تو یہ نغمے اور نقشے دور تک زخموں پر نمک پاشی کرتے چلے جاتے ہیں۔ کشمیریوں سے اظہار یکجہتی کے لیے موسیقی نہیں توپوں کی گھن گرج کی ضرورت ہے۔ ملک کے سیاسی معاملات ہوں، حکومت کی خراب کارکردگی ہو، کشمیر کا معاملہ ہو یا خارجہ امور جناب عالی ہر جگہ آپ ہی کو دوشی قراردیا جارہا ہے۔ کہاں وہ دن جب آپ کا نام سن کر ٹانگیں کپکپاتی تھیں کہاں یہ دن کہ لوگوں کی زبانیں گز گز بھر کی ہوگئی ہیں۔ کیا اس میں لوگوں کا کوئی قصور ہے؟