ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں

483

میں نے چند دن قبل ’’پاک چین عسکری تعاون سود مند ہوگا؟‘‘ کے عنوان سے ایک کالم تحریر کیا تھا جو اسی مہینے کی 5 تاریخ کو جسارت میں شائع ہو بھی چکا ہے۔ اس کالم میں میں نے پاکستان کی چین کے ساتھ بڑھتی ہوئی قربت کے پیش نظر اس بات کا خدشہ ظاہر کیا تھا کہ امریکا اور ایسے تمام ممالک سے جن کی پالیسی امریکا سے قربت کی ہے، ان سے اپنے آپ کو دور کرنے کا نتیجہ ممکن ہے کہ پاکستان کے لیے نئی مشکلات کھڑی کردے۔ لہٰذا اس بات کا خدشہ ہے کہ امریکا اس قربت کو کسی صورت گوارہ نہیں کرے گا۔ بھارت کیونکہ امریکا کے دامِ فریب میں بہت بری طرح پھنس چکا ہے جس کی وجہ سے پاکستان کی مشرقی سرحدیں مزید مخدوش ہو سکتی ہیں اور امریکا چین کشیدگی کی صورت میں ممکن ہے پاکستان ’’سینڈ وچ‘‘ بن کر رہ جائے۔ میرا خیال تھا کہ پاک چین قربت بہت سنجیدہ نوعیت ہونے کی وجہ سے سوچ بچار کے لیے کافی وقت لے گی لیکن میرا اندازہ غلط ثابت ہوتا ہوا محسوس ہو رہا ہے اور حکومت پاکستان اور مقتدر قوتیں شاید بہت بڑا فیصلہ نہ صرف کر بیٹھیں ہیں بلکہ ابتدائی اقدامات بھی اٹھائے جا چکے ہیں۔
خبروں کے مطابق سعودی عرب سے 3 ارب 20 کروڑ ڈالر تیل ادھار لیے جانے کا ایک معاہدہ ہوا تھا جس کے تحت ہر سال ایک ارب سے زیادہ تیل ادھار لیا جا سکتا تھا اور رقم کی ادائیگی کی صورت میں مزید ایک سال کے لیے تیل ادھار لیا جا سکتا تھا۔ یہ معاہدہ ایک ماہ قبل جولائی کی 9 تاریخ کو اپنی پہلی مدت کی تکمیل کر چکنے کے باوجود اپنی تجدیر کا منتظر ہے لیکن تا حال حکومت پاکستان نے اس کو مؤخر رکھا ہوا ہے جبکہ معاہدے کے مطابق وہ پہلے سال کی رقم سعودی ارب کو لوٹا بھی چکا ہے۔ شاہ محمود قریشی کی ٹی وی پر ہونے والی گفتگو بھی پاک سعودی تعلقات میں دوریوں کا عندیہ دیتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ اے آر وائی کے ایک پروگرام میں انہوں نے کہا ہے کہ او آئی سی آنکھ مچولی اور بچ بچاؤ کی پالیسی نہ کھیلے۔ انہوں نے کہا کہ کانفرنس کی وزرائے خارجہ کا اجلاس بلایا جائے اگر یہ نہیں بلایا جاتا تو میں خود وزیر اعظم سے کہوں گا کہ پاکستان ایسے ممالک کا اجلاس خود بلائے جو کشمیر پر پاکستان کے ساتھ ہیں۔ ان کے مطابق یہ اجلاس او آئی سی کے پلیٹ فارم یا اس سے ہٹ کر بلایا جائے‘‘۔
ممکن ہے کہ شاہ محمود قریشی نے یہ بیان اس خدشے کے پیشِ نظر دیا ہو جس کا اظہار انہوں نے کچھ دن قبل کچھ یوں کیا تھا کہ اس بات کا امکان ہے کہ بھارت آنے والے برس مارچ اپریل میں پاکستان کے خلاف کوئی بڑی کارروائی کرے۔ ایسی صورت میں پاکستان کو اپنے ہمدرد، دوست اور پڑوسی ممالک سے اس بات کا واضح ہونا ضروری ہے کہ ان حالات میں کیا وہ پاکستان کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر کھڑے ہیں یا پھر پاکستان ان ممالک سے رابطہ کرے جو کشمیر پر اپنا واضح مؤقف رکھتے ہوں۔ ایسے ممالک میں ملائیشیا اور ترکی کے علاوہ چین بھی شامل ہے جو کشمیر میں ہونے والے ظلم و ستم پر طویل خاموشی کے حق میں نہیں۔ پاکستان کے اس لب و لہجے کے پسِ پشت کیا محرکات ہیں، اس کا اندازہ تو آنے والے دنوں میں ہی ہو سکے گا لیکن جن خد شات کا اظہار میں نے اپنے مذکورہ کالم میں کیا تھا، لگتا ہے کہ وہ حقیقت کا روپ دھارتے چلے جا رہے ہیں۔
پاکستان کی حکومت اور مقتدر حلقے جو بھی کریں گے یا کرنے کا فیصلہ کر چکے ہیں وہ یقینا ریاست کے لیے بہتر سوچ کر ہی کریں گے۔ لیکن ان حالات میں جس قسم کا لہجہ وزارت خارجہ کی جانب سے اختیار کیا جا رہا ہے یہ اس صورت میں بہت اچھا ہوتا جب پاکستان امریکا، روس، چین اور دنیا کے بہت سارے ممالک کی طرح ہر معاملے میں خود کفیل و خود مختار ہوتا۔ جس ملک کی ہر ضرورت غیر ملکی قرضوں سے پوری ہوتی ہو، کیا معلوم ہمارے یہ لب ولہجے ہمیں کنوئیں سے نکال کر کھائی میں نہ گرادیں۔
موجودہ صورت حال یہ ہے کہ امریکا بھارت کو پاکستان سے لڑا دینا چاہتا ہے تاکہ سی پیک کی راہداریاں چین کے قابو میں نہ آسکیں تو دوسری جانب چین اس معاملے میں پاکستان کو استعمال کرتا نظر آ رہا ہے اور جواز کشمیر کو بنانا چاہتا ہے۔ کشمیر پر بھارت کا قبضہ نہ چین کو گوارہ ہے اور نہ ہی پاکستان کو۔ ایسی صورت میں پاکستان چین کا ساتھ دینے پر مجبور ہے اور یہ مجبوری اسے چین کا مکمل دست نگر بھی بنا سکتی ہے جس کا پہلا ثبوت سعودیہ اور دیگر عرب ممالک کے قرضے ہیں جو چین ادا کرنے کے لیے بصد خوشی تیار نظر آ رہا ہے۔
چین سے قربت بڑھانا راقم الحروف کے نزدیک ہے تو سود مند لیکن اس میں تقریباً 50 برس کی تاخیر ہو چکی ہے۔ اگر بھٹو کے دورِ حکومت میں اس قربت کو پورے پاکستان میں فتنہ نہ بنایا جاتا تو آج پاکستان اور چین دنیا کی ایک عظیم طاقت بن سکتے تھے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب چین اور پاکستان ایک ہی جیسے غریب اور پس ماندہ ہوا کرتے تھے لیکن اب چین ایک عفریت اور اس کے مقابلے میں پاکستان نہایت نحیف ملک میں تبدیل ہو چکا ہے اس لیے اب چین کا غلبہ پاکستان کے لیے کوئی ایسی خبر نہیں جس پر اطمینان کا اظہار کیا جا سکے۔ بقول منیر نیازی
مدد کرنی ہو اس کی، یار کی ڈھارس بندھانا ہو
بہت دیرینہ رستوں پر کسی سے ملنے جانا ہو
بدلتے موسموں کی سیر میں دل کو لگانا ہو
کسی کو یاد رکھنا ہو، کسی کو بھول جانا ہو
ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں