سینیٹ میں عدم اعتماد کی تحریک صدارتی انتخاب اور پھر آزادی مارچ میں ناکامی کے بعد ایک بار پھر اپوزیشن حکومت گرانے کے لیے پر تول رہی ہے۔ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کی جانب سے حکومت مخالف تحریک کا اعلان متوقع ہے ساتھ ہی مولانا فضل الرحمن بھی ایک بار پھر حکومت مخالف تحریک کا آغاز کرنے کے لیے سرگرم دکھائی دے رہے ہیں، اس بار مولانا کی جانب سے ن لیگ اور پیپلزپارٹی کو حکومت مخالف تحریک میں شمولیت کی دعوت نہیں دی گئی یہ بات تو واضح ہے کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن جو روایتی سیاسی حریف رہے ہیں جن کا نظریہ ایک دوسرے سے جدا ہے اور مولانا کے آزادی مارچ میں ان دونوں جماعتوں کی غیر سنجیدگی کا بخوبی انداز لگایا جاسکتا ہے کہ یہ دونوں جماعتیں کبھی ایک پیج پر کام نہیں کر سکتیں، سینیٹ سے آزادی مارچ تک کے سفر میں ان دونوں جماعتوں کے موقف میں واضح فرق اور پھر مولانا کو جس طرح سے ان دونوں جماعتوں نے ہری جھنڈی دکھائی جس سے پوری قوم کے سامنے ان دونوں جماعتوں کا چہرہ بے نقاب ہوا۔ یہ بات بڑی واضح ہے کہ اپوزیشن کے پاس اب کرنے کو کچھ نہیں رہا مہنگائی کے بوجھ تلے دبے عوام کے لیے اپوزیشن کے پاس کچھ نہیں ہے۔ یہ دونوں جماعتیں نہ اپنے دور اقتدار میں غریب کے بنیادی مسائل کو حل کر سکی ہیں اور نہ ہی آج حل کرانے میں سنجیدہ ہیں، اپوزیشن کی یہ دونوں جماعتیں اس وقت خود کسی کے رحم کی منتظر ہیں۔ ن لیگ قیادت سے محروم ہے تو پیپلزپارٹی سنجیدہ قیادت سے محروم نظر آتی ہے۔
کیا یہ اشارہ کافی نہیں ہے کہ اس وقت ملک سیاسی، معاشی، دفاعی بحران کی سنگین حالت میں ہے اور اس وقت ملک کی سب سے بڑی اپوزیشن کی جماعت کے لیڈر تین بار منتخب سابق وزیر اعظم بیرون ملک سکون کے سانسیں لے رہے ہیں، یہ لمحہ فکر ہے کہ غریب عوام مہنگائی کے ہاتھوں پریشان ہیں اپوزیشن لیڈر شہباز شریف نائب صدر مریم بی بی سیاسی منظر نامے سے غائب ہیں۔ جب کرپشن کے کیسز کا سامنا ہوتا ہے تو پوری ن لیگ کی سینئر قیادت یکجا ہوکر اداروں کا مقابلہ کرتی نظر آتی ہے جو کسی طور مناسب نہیں۔ دوسری جانب پیپلزپارٹی جو 12 سال سے سندھ کے اقتدار پر براجمان ہے جس کا صرف ایک مقصد ہے کرپشن بچائو اور اقتدار میں آئو۔
سابق صدر آصف زرداری اب شاید سیاست سے کنارہ کش ہو جائیں بھٹو صاحب کی پیپلزپارٹی اب بلاول زرداری کے رحم وکرم پر ہے اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ مولانا صاحب کے آزادی مارچ کو ناکام کرنے میں بلاول زرداری کا اہم کردار رہا ہے اپوزیشن کی پہلی APC جس میں اسمبلیوں سے استعفا دینے کی شرط رکھی گئی جس کو بلاول نے پوری طرح سے مسترد کیا جس پر شہباز شریف نے بلاول کا بھرپور ساتھ دیا جبکہ مریم بی بی نے مولانا کے موقف کی مکمل حمایت کی اسی طرح سینیٹ الیکشن میں ناکامی کے بعد خود بلاول زرداری نے اس بات کا اشارہ دیا کہ اگر پیپلزپارٹی کے جن سینیٹر نے ہمیں ووٹ نہیں دیا ان کی مکمل تحقیقات ہوگی مگر آج تک یہ تحقیقات مکمل نہیں ہوسکی اسی طرح کا رویہ ایک بار پھر پیپلزپارٹی نے مولانا کے آزادی مارچ میں اپنایا، دھرنے کو غیر جمہوری کہہ کر بلاول نے پھر یوٹرن کا سہارا لیا اور اس طرح دھرنے کی ناکامی کا سہرا پوری پیپلزپارٹی اور شہباز شریف کے سر جاتا ہے اپوزیشن کے اس سیاسی تضاد سے اس بات کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ حکومت مخالف تحریک چلانے کی اس اپوزیشن میں کوئی اہلیت نہیں ہے ساتھ ہی یہ بات بھی بڑی واضح ہے کہ خان صاحب کے اقتدار کو اپوزیشن سے کوئی خطرہ نہیں ہے۔
ہم سمجھتے ہیں کہ ملک میں اس وقت معاشی بحران ہے عوام مہنگائی، بے روزگاری، تعلیم، علاج کی سہولتوں سے محروم ہیں حکومت دو سال میں اپنی ناکامی کا ڈھول بجا چکی ہے، خان صاحب کے پاس غریب عوام کے مسائل کا شاید اب کوئی مستقل حل موجود نہیں خان صاحب کی معاشی ٹیم عوام کو ریلیف فراہم کرنے میں ناکام ہوچکی ہے۔ خان صاحب اگر واقع اس قوم کا درد رکھتے ہیں تو تمام سیاسی انتقام سے باہر نکل کر اس غریب قوم کے مسائل پر توجہ دیں روزمرہ کی اشیاء صرف کو سستا کرنا عوام کو ریلیف فراہم کرنا حکومت کے لیے کوئی مشکل کام نہیں ہے جو حکمران اپنے عوام کو کھانے پینے کی اشیا پر ریلیف فراہم نہیں کر سکتے وہ پاکستان کو کس طرح ترقی وخوشحالی کی جانب گامزن کرسکتے ہیں۔ اس قوم کو جہاں حکومت نے مایوس کیا ہے وہاں اپوزیشن کی دو بڑی جماعتوں پیپلزپارٹی اور ن لیگ نے حکومت سے زیادہ مایوس کیا ہے حکومت مخالف تحریک صرف سیاست میں زندہ رہنے کے سوا کچھ نہیں، بلاول زرداری کو یہ طے کرنے کی ضرورت ہے کہ وہ کس جمہوریت کی بات کرتے ہیں سندھ کے عوام کے مسائل 12 برس سے حل نہیں کیے گئے، کراچی شہر کا بیڑا غرق کر دیا گیا، برسات نے سندھ حکومت کی نااہلی کا پردہ چاک کر دیا ہے اور جانشین بھٹو اپنے آبائی سیاسی صوبے کو مصیبتوں کے سپرد کر کے وفاق کو فتح کرنے چلے ہیں۔ پاکستان کا معاشی حب کراچی مسائل کا گڑھ بن گیا ہے مگر بلاول زرداری اپنا گھر چھوڑ کر پورے ملک کو سنبھالنے کا بیڑا اُٹھانے کی ناکام کوشش میں مبتلا ہیں، چیخ چیخ کر اسمبلی میں حکومت پر تنقید کرنے سے پہلے بلاول صاحب کو ایک مثالی صوبہ پیش کرنے کی ضرورت ہے جس کو دیکھ کر حکومت بھی ہوش کے ناخن لے اپنی کشتیاں جلا کر دوسرے کی کشتی میں سورخ کرنے کی کوشش اب بند کی جائے۔
بلاول کو اس وقت سنجیدہ عوامی سیاست کرنے کی ضرورت ہے ساتھ ہی شہباز شریف اور مریم بی بی کو اب اس قوم کی تیمارداری کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ مولانا فضل الرحمن نے اپوزیشن کی دوسری APC کو شروع ہونے سے پہلے ہی ناکام بنا دیا ہے جس سے یہ بات تو واضح ہوچکی ہے کہ خان صاحب کے اقتدار کو غیر سنجیدہ ذاتی مفادات کی اپوزیشن سے کوئی بڑا خطرہ نہیں۔ پاکستان کی تاریخ میں آج تک کسی APC سے حکومت کو گرایا نہیں جاسکا ہے دوسری جانب یہ قوم 6 ماہ کورونا وائرس کی مصیبت میں اپنا بہت کچھ گواں چکی ہے۔ جس کا ازالہ محترم وزیر اعظم عمران خان صاحب کو کرنا ہے مہنگائی کے جن کو قابو کیا جائے، کاروبار کے بہتر مواقع فراہم کیے جائیں، علاج تعلیم کی جانب موثر توجہ دی جائے تاکہ ملک ترقی وخوشحالی کی جانب تیزی سے گامزن ہوسکے۔