شمع انعام
شہر کی منڈی میں ایک روز پھل فروش عمدہ سیبوں کا بھرا ٹھیلا لے کر آیا اور آواز لگاکر اپنے پھل بیچنے لگا۔ آس پاس کے لوگ ٹھیلے کے قریب جمع ہوگئے۔ یہ پھل فروش سارے شہر میں مشہور تھا اور سب لوگ جانتے تھے کہ اس کا مال سب سے مہنگا ہوتا ہے۔ بہت سے لوگوں نے اس سے پھل خریدے اور بعض صرف دام پوچھ کر رہ گئے۔ لیکن تعریف سب نے کی کہ منڈی بھر میں اس سے بہتر پھل مشکل سے ملے گا۔ پھل فروش کی دوسری خامی یہ تھی کہ وہ بے حد تنگ دل تھا۔ گلے ہوئے پھل بھی کسی غریب کو مفت نہیں دیتا تھا اور نہ دام میں کسی قسم کی رعایت کرتا تھا۔ عین اُس وقت جب کہ لوگ اس کے ٹھیلے کے گرد کھڑے تھے، پھٹے پرانے کپڑوں میں ایک فقیر وہاں سے گزرا اور سُرخ سُرخ سیبوں کو دیکھ کر ٹھٹھک گیا۔ کہتے ہیں کہ دانے دانے پر مہر ہوتی ہے۔ فقیر سوچنے لگا کہ نہ جانے ان میں سے کون سا پھل اس کی قسمت میں ہے۔ حالاں کہ یہ سوچنا ہی بے کار تھا کیوں کہ اس کی جیب میں پھل خریدنے کے لیے پھوٹی کوڑی بھی نہیں تھی، مگر اس نے ہمت کی اور پھل فروش کے سامنے ہاتھ پھیلا دیا۔
وہ بھلا اس جرأت کو کیسے گوارا کرتا؟ اس نے بُری طرح اس کا ہاتھ جھٹک دیا اور تیوری پر بل ڈال کر کہا: جا جا آگے بڑھ، میرا مال بھکاریوں کے لیے نہیں ہے۔ فقیر پھر بھی نہ ٹلا تو اس نے زیادہ سختی سے ڈانٹ کر کہا: سیدھی طرح سے آگے چلا جا، ورنہ ایک ہاتھ ماروں گا اور تمہاری طبیعت دُرست ہوجائے گی۔
شور شرابہ سُن کر کچھ لوگ جو پھل خریدنا نہیں چاہتے تھے، پھل فروش کے خلاف بول پڑے: میاں اتنی تیزی نہ دکھاؤ۔ آخر یہ بھی اللہ کا بندہ ہے۔ اس کے پاس پیسے نہیں ہیں تو کیا ہوا، ایک آدھ گلاسڑا سیب دے کر اس کی بات پوری کردو۔ تمہارا دیوالیہ تھوڑا ہی نکل جائے گا۔
پھل والا ان اعتراض کرنے والوں سے اُلجھ پڑا: بڑے آئے نصیحت کرنے والے۔ خود سخی بن جاؤ، اپنی جیب سے خرید کر اس کے حوالے کردو۔ پیسے دکھاؤ تو سارا مال تول کر ابھی دے دیتا ہوں۔
کچھ لوگ پھل فروش کی حمایت کرنے لگے: بات تو ٹھیک ہے۔ اس طرح ہر دکان دار خیرات کرنے لگے تو وہ کمائے گا خاک! آج کل شہر میں بِھک منگوں کی اتنی کثرت ہے کہ ہر چار قدم پر دُعائیں دے کر مال کھسوٹنے والے مل جاتے ہیں۔ اس بحث مباحثے میں خاصا غُل مچا۔ کچھ اور لوگ جمع ہوگئے، آخر ایک شخص نے اس جھگڑے کو چکانے کے لیے آگے بڑھ کر ایک روپیہ پھل فروش کے ہاتھ پر رکھا اور کہا کہ اسے ایک سیب دے دو۔ اس نے رقم بٹوے میں ڈالی، بہت حقارت کے ساتھ ایک سیب اُٹھا کر فقیر کے حوالے کردیا۔
فقیر نے کہا: بابا، اللہ تمہارا بھلا کرے۔ تم نے میرا دل رکھا، اللہ تمہاری مراد پوری کرے گا۔ مجھے تو خوامخواہ ضد ہوگئی تھی، ورنہ میرے پاس بھی سیب کا درخت ہے جو پھلوں سے لدا ہوا ہے۔
لوگ یہ بات سُن کر ہنس پڑے: اگر تمہارے پاس پھلوں سے لدا ہوا درخت موجود ہے تو پھر بھیک کیوں مانگتے ہو؟ پہلے انہیں کھا کر ختم کرو، پھر بازار میں ٹھوکریں کھانے آؤ۔
اتنی دیر میں فقیر نے آدھا سیب کھا لیا تھا۔ اس نے ایک موٹا بیج نکالا اور لوگوں کو دکھاتے ہوئے کہا: صرف بیج بونے کی کسر ہے۔ یہ کہہ کر اس نے وہیں سڑک پر چھوٹا سا گڑھا کھودا اور اس میں بیج رکھ کر اوپر سے مٹی ڈال دی۔ پھر کہا: کوئی بھلا آدمی ایک کٹورا پانی لا دے تو کیاری مکمل ہوجائے۔ لوگ ایک بار پھر ہنس پڑے۔ لیکن ایک لڑکے نے پانی لا کر دیا۔ مٹی پر پانی ڈالنا تھا کہ ایک دم بیج پھوٹ نکلا اور پودا بڑھنے لگا۔ دیکھتے ہی دیکھتے وہ ایک اونچا گھنا درخت بن گیا، پرندے اُڑ کر اس پر آ بیٹھے،کلیاں نکلیں اور پھول کِھلنے لگے اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے بے شمار پھل نمودار ہوئے جو جلد ہی پک کر سیبوں میں تبدیل ہوگئے۔ لوگ حیران تھے کہ یہ کیا کرامات ہیں؟ اب تو اس پر اعتراض کرنے والے بھی کبھی اس کا منہ تکتے اور کبھی درخت کی پھل دار ڈالیوں پر للچائی ہوئی نظر ڈالتے۔
فقیر نے کہا: بھائیو، یہ درخت عام راستے پر اُگا ہوا ہے، اس لیے اس کے پھل آپ سب لوگوں کے لیے ہیں۔ میری طرف سے اجازت ہے توڑو اور کھاؤ۔ یہ سُننا تھا کہ لوگ پھل توڑنے کے لیے پل پڑے۔ کچھ اوپر چڑھ گئے اور پھل توڑ توڑ کر اپنے واقف کاروں کو دینے لگے۔ خود پھل فروش بھی جو درخت کو اُگتے اور پروان چڑھتے دیکھ کر حیران ہورہا تھا، اس لُوٹ کھسوٹ میں شامل ہوگیا۔
یہ سلسلہ زیادہ دیر جاری نہ رہا۔ بہت جلد سارا درخت خالی ہوگیا۔ لوگ بھری ہوئی جھولیاں لے کر اپنے گھروں کو جانے لگے۔ فقیر نے اپنے کاندھے پر سے ایک کلہاڑی اُتاری اور دو چار ہاتھ مار کر درخت کا تنا گرادیا اور لوگوں سے کہا کہ اس کی لکڑی بھی ساتھ لے جاؤ، جلانے کے کام آئے گی۔ خود فقیر نے اس درخت کا ایک بھی پھل نہیں کھایا اور لوگوں کو سلام کرتا ہوا ایک طرف چلا گیا۔
جب ذرا بھیڑ چھٹی اور پھل فروش کو اپنے ٹھیلے کا خیال آیا تو اس نے مُڑکر دیکھا اور پھر حیران رہ گیا کہ اس پر پتّوں کے سوا کچھ نہ تھا۔ تمام سیب غائب ہوچکے تھے اور ٹھیلے کا ڈنڈا بھی ٹوٹ گیا تھا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ اس پر کسی نے کلہاڑی سے چوٹ لگائی ہے۔ اس نے ایک لمحے کے لیے سوچا اور فوراً اصل بات تاڑ گیا۔ اس نے دل میں کہا کہ یہ سب نظر کا دھوکا تھا۔ فقیر نے کرامات نہیں، اپنے ہاتھ کی صفائی دکھائی اور میرے ہی ٹھیلے کے تمام پھل لوگوں میں تقسیم کردیے، اور جب اس نے درخت کا تنا کاٹا تو درحقیقت کلہاڑی کی چوٹ میرے ٹھیلے کے ڈنڈے پر پڑی اور وہ کٹ گیا۔ اس نے اُس طرف نظردوڑائی جدھر فقیر گیا تھا، لیکن دور تک اس شعبدے باز کا پتا نہیں تھا۔ اب وہ اپنے دل میں بہت پچھتایا۔ اس نے سوچا کہ اگر میں ٹھنڈے دل سے ایک سیب فقیر کو دے دیتا اور معاملہ اتنا نہ بڑھاتا تو میرے پھل سلامت رہتے اور یہ نقصان برداشت نہ کرنا پڑتا، مگر اب پچھتانے سے کیا ہوسکتا تھا! پھل لے کر سب لوگ منڈی سے جا چکے تھے اور اگر وہاں ہوتے تب بھی اسے واپس کیوں کرتے! وہ تو یہی کہتے کہ ہم نے درخت سے سیب توڑے ہیں، تمہارا ان پر کیا حق ہے؟ اور یہ بات اسے ماننی پڑتی، کیوں کہ خود پھل فروش اس بات کو تسلیم کرنے کے لیے تیار تھا کہ درخت سڑک پر اُگا، اس میں پھل لگے اور سب لوگوں نے توڑے۔ ٹھیلے پر سے کسی نے کوئی سیب نہیں اُٹھایا تھا۔ آخر وہ دل ہی دل میں شعبدے بازفقیر کو کوستا اور اپنی بُری زبان پر افسوس کرتا اپنے گھر چلا گیا۔
nn
——-
احساس جرم
صالحہ صدیقی
’’بیٹا پڑھ لو۔ تمہارے سمسٹرکے امتحان ہونے والے ہیں‘‘۔ امی نے کہا۔
باقر: ’’ارے امی پڑھ لوں گا۔ سب تیاری ہے۔ آپ پریشان نہ ہوں‘‘۔ اُس نے اتنے یقین سے کہا کہ امی کو یقین ہوگیا۔ وہ بولیں ’’ٹھیک ہے بیٹا۔ میں ایک کام سے جا رہی ہوں، گھر کا خیال رکھنا اور گھر ہی میں رہنا‘‘۔ امی ہدایت کرتی ہوئی باہر چلی گئیں۔ باقر اپنے ماں باپ کا اکلوتا بیٹا تھا۔ والدین کی خواہش تھی کہ باقر کو پہلے حافظِ قرآن بنائیں گے اس کے بعد دنیاوی تعلیم اس کو دلائیں گے۔ باقر ذہین تھا اس لیے اُس نے ماشاء اللہ بارہ سال کی عمر میں قرآن حفظ کرلیا تھا۔ اُس کے والد شاکر صاحب نے اس کا داخلہ انگلش میڈیم اسکول میں ساتویں جماعت میں کرا دیا جہاں وہ بڑے احسن طریقے سے علم حاصل کررہا تھا۔ اُن کا گھرانہ ایک اوسط درجے کی فیملی سے تعلق رکھتا تھا۔ وہ آرام سے اپنی زندگی بسر کررہے تھے۔ شاکر صاحب فیکٹری میں ملازم تھے۔ امی بھی سلائی کرکے گھر میں ہاتھ بٹا لیتی تھیں۔
شام جب امی گھر آئیں تو گھر کھلا ہوا تھا۔ وہ ڈر گئیں۔ وہ بیٹے کو آوازیں لگا رہی تھیں لیکن اُس کا کچھ پتا نہیں تھا۔ وہ پاگلوں کی طرح اِدھر اُدھر دوڑ رہی تھیں۔ گلی میں جھانکا تو سامنے سے باقر آتا ہوا دکھائی دیا۔ انہوں نے اللہ کا شکر ادا کیا اور پھر غصے سے اس سے بولیں ’’تم کہاں گئے تھے؟ دروازہ کیوں کھلا ہوا تھا؟‘‘ امی کے سوالوں کی بوچھاڑ نے باقر کے اوسان خطا کردیے۔ وہ جس بات کو معمولی سمجھ رہا تھا، وہ اتنی اہمیت کی حامل ہوگی یہ اُس کو معلوم نہ تھا۔ جب اس سے کوئی جواب نہ بن پڑا تو امی سے معافی مانگنے لگا ’’امی مجھ سے غلطی ہوگئی۔‘‘ یہ کہہ کر اُس نے جان چھڑا لی۔ امی صرف اس کے چہرے کو دیکھتی رہ گئیں۔
اسکول سے بھی شکایتیں آنے لگیں۔ امی حیران تھیں کہ ایسا کبھی نہیں ہوا، اب ایسا کیوں ہورہا ہے! وہ پریشان تھیں۔ اسکول میں کچھ نئے لڑکوں کا داخلہ ہوا تھا جن میں سے کچھ لڑکے باقر کی کلاس میں بھی آئے تھے۔ یہ تین لڑکوں پر مشتمل گروپ تھا، جو کراچی کے مختلف اسکولوں سے نکالے گئے تھے، کیونکہ وہ پڑھنے نہیں آتے تھے۔ اُن کا کام صرف اچھے لڑکوں کو خراب کرنا تھا۔ اسکولوں کی چھٹی کرواتے تھے یا پھر بریک ٹائم میں اسکول سے بھاگ جاتے تھے۔ گلی کوچوں میں وارداتیں کرتے تھے اور وقت پر گھر آجاتے تھے۔ یہ بات تو گھر والوں کو معلوم ہی نہ تھی۔ انھی حرکات میں باقر بھی ملوث ہوگیا تھا۔ وقتاً فوقتاً اسکول کے بہانے نکلتا تھا اور غائب ہوجاتا۔
ایک دن باقر اپنے گھر میں امی کے لیے سلائی مشین لایا۔ اُس کی امی نے اس سے پوچھا ’’بیٹا کہاں سے لائے ہو؟ کس نے دی ہے؟‘‘ امی کی بات سنی ان سنی کرکے ان کو دکھانے کے لیے باقر کتابیں کاپیاں لے کر بیٹھ گیا۔ امی نے سوچا چلو پھر بات کرلوں گی۔ باقر قد کاٹھ کی وجہ سے بڑا بڑا لگتا تھا۔ رمضان بھی سر پر آرہے تھے۔ امی کو فکر تھی، اس لیے انہوں نے سلائی بھی زیادہ شروع کردی۔
ابھی رمضان کا پہلا عشرہ شروع ہوا تھا، اور باقر کی مصروفیات میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا تھا۔ امی اگر پوچھ لیتیں تو وہ کہہ دیتا تھا کہ ’’ہم دوست مل کر پڑھتے ہیں‘‘۔ امی چپ ہوجاتی تھیں۔ ان تینوں دوستوں کا ٹھکانہ ایک طے شدہ جگہ پر تھا جہاں یہ سب جمع ہوکر باتیں کرتے اور نئے نئے منصوبے بناتے تھے۔ اس مرتبہ بھی انہوں نے ایک منصوبہ بنایا۔ اگلے دن اسکول ٹائم ختم ہوچکا تھا۔ باقر اپنے گھر چلا گیا تھا۔ کھانا کھا کر اپنی امی سے کوئی بہانہ کرکے وہ گھر سے نکل گیا۔ مقامی کوچنگ سینٹر سے تھوڑے فاصلے پر انہیں اپنا کام کرنا تھا۔ پلاننگ کے تحت دو لڑکے اسکوٹر پر تھے اور دو موبائل چھیننے پر تعینات کردیے گئے۔ ابھی یہ لوگ گزرتی ہوئی لڑکیوں اور لڑکوں سے موبائل اور رقم چھیننے میں مصروف تھے کہ علاقے کے کسی لڑکے نے (جو یہ سب کھڑکی سے دیکھ رہا تھا) پولیس کو اطلاع کردی۔ لمحوں میں پولیس کی گاڑی سائرن بجاتی مقررہ جگہ پر پہنچ گئی۔ باقر بھاگ گیا۔ پولیس کے فائر سے اس کی ٹانگ پر گولی لگی تھی۔ اس کے ساتھی پکڑے گئے۔ باقر اپنے گھر نہیں گیا۔ وہ اسی ٹھکانے پر گیا جہاں یہ سب منصوبہ بناتے تھے۔ بھوک پیاس سے اس کا برا حال تھا۔ پانی پی پی کر کب تک گزارا کرتا! اس کو الٹیاں لگ گئیں۔ گولی بھی اس کی ٹانگ سے نہیں نکلی تھی۔ وہ شدتِ کرب سے چیخ رہا تھا۔ اس کی کوئی سنوائی نہیں تھی۔ وہ بے ہوش ہوگیا تھا۔ اس کے ساتھی باسط کے بتانے پر پولیس اس کے گھر پہنچی تو امی اور ابو پریشان ہوگئے۔ پولیس والوں نے بتایا تو نہیں بس یہ کہا کہ ہمیں کچھ معلومات کرنی ہے۔ گھر آجائے تو بتادینا۔ امی نے گھبراتے ہوئے کہا ’’جی اچھا‘‘۔ امی کا روتے روتے برا حال ہوگیا تھا۔ ابو بھی اپنے رشتے داروں کو بتا رہے تھے۔ سب اپنا اثررسوخ استعمال کررہے تھے۔
لوگ روزے رکھ رہے تھے، باقر کے گھر میں صفِ ماتم بچھی ہوئی تھی۔ رات جب امی نے عشاء کی نماز پڑھ کر دعا کے لیے ہاتھ بلند کیے تو اسی وقت تھانے سے فون آگیا۔ آپ اپنے بیٹے سے مل لیں۔ رات تقریباً 1 بجے کا وقت تھا۔ دونوں جب تھانے پہنچے تو باقر بے ہوش پڑا ہوا تھا۔ مامتا بے چین ہوکر تڑپ اُٹھی۔ باقر کی امی ان لڑکوں کو برا بھلا کہنے لگیں۔ ایس ایچ او نے کہا ’’اس کو ہم ہسپتال بھیج رہے ہیں۔ اس کی ٹانگ پر جو گولی لگی ہے وہ ابھی نکلی نہیں ہے۔ اس کا زہر تمام جسم میں پھیل گیا ہے‘‘۔ فوراً ایمبولینس میں باقر کو ہسپتال بھیجا گیا جہاں اس کی ایک ٹانگ کاٹ دی گئی۔ ابھی وہ خطرے میں ہی تھا۔ اس کو ہوش نہیں آرہا تھا۔ ماں کا آنچل اللہ کے سامنے پھیلا ہوا تھا۔ اس کی دعائیں عرش تک پہنچ رہی تھیں۔ باقر کو ہوش آگیا تھا۔ اس نے جب اپنی ٹانگ گھمانے کے لیے ہلائی تو وہ حیران ہوگیا تھا۔ اس کی ایک ٹانگ نہیں تھی۔ وہ رونے لگا۔ ماں اور ابا سے معافی مانگ رہا تھا۔ اس کے سامنے وہ تمام منظر گھوم گیا تھا۔ کتنے لوگوں کے موبائل چھینے تھے، کتنے لوگوں کے پرس چھینے تھے۔ وہ لیٹے لیٹے رو پڑا۔ اس کے احساسِ جرم نے اُسے شرمندہ کردیا تھا۔ وہ اپنی نظریں ماں باپ اور رشتے داروں سے نہیں ملا پا رہا تھا۔ وہ پولیس کا مجرم تھا۔ پولیس انتظار کررہی تھی اس کے اچھا ہونے کا۔ وہ ہسپتال سے گھر نہیں تھانے کا مہمان بننے جا رہا تھا۔ ماں کے آنسو اس کے آنچل کوبھگو رہے تھے۔ لیکن باقر کو یہ احساس نہ تھا۔ ذرا سی غلطی نے کتنے لوگوں کے گھروں کے چراغ گل کردیے ہیں۔ موبائل نہ ملنے پر انسان کو گولی کا نشانہ بنادیتے ہیں۔ ذرا سوچو موبائل تو دوبارہ مل جاتا ہے، لیکن انسانوں کو زندگی دوبارہ نہیں مل سکتی تھی۔ کسی کے گھر کا چراغ ہوگا، کوئی اپنے خاندان کا واحد سہارا ہوگا۔
باقر کو احساس ہورہا تھا کہ اُس نے اپنے ہاتھوں سے صرف ایک موبائل کی خاطر کتنوں کی جانیں لے لی تھیں۔ اس کے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں تھیں۔ اس کو پولیس والے ہسپتال سے تھانے لے گئے۔ ماں غصے میں بھری ہوئی تھی۔ وہ اب صرف اپنے بیٹے کے لیے بددعا ہی کررہی تھی کہ ’’ایسی اولاد سے بہتر تھا بے اولاد رہنا، جس نے میری عزت دو کوڑی کی کردی۔‘‘
باقر کی حرکتوں کی وجہ سے رمضان اور عید اس گھر میں ایسے گزرے جیسے کوئی مر گیا ہو۔ ان کے رشتے داروں نے بھی ملنا جلنا چھوڑ دیا تھا۔ پہلے لوگ باقر سے خوش ہوتے تھے۔ اس نے قرآن جو حفظ کرلیا تھا۔ اس کو حافظ کہتے تھے۔ ماں نے تمام زیور بطور ضمانت دے کر باقر کو چھڑا لیا۔ اب باقر پڑھائی چھوڑ چکا تھا۔ پرائیوٹ تعلیم کا انتظام کردیا تھا۔ محلے کے بچوں کو سپارہ پڑھانے لگا تھا۔ اس سے اس کی ماں خوش ہوگئی تھی اور محلے والوں نے بھی اس کو معاف کردیا تھا۔