خواجہ رضی حیدر
بانئ پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کا شمار بیسویں صدی عیسوی کی اُن عظیم شخصیات میں ہوتا ہے جو اپنی حیات و خدمات کی روشنی میں تاریخ کا ایک ایسا باب بن گئی ہیں کہ نہ صرف آنے والی صدیاں ہی اُن کے تذکرے سے گونجتی رہیں گی، بلکہ آئندہ نسلیں بھی اُن کے خیالات و افکار سے رہنمائی حاصل کرتی رہیں گی۔ قائداعظم محمد علی جناح نے برصغیر کی ملتِ اسلامیہ کو جو مغلیہ سلطنت کے زوال کے بعد سے منتشر اور پسماندہ تھی، نہ صرف متحد کیا بلکہ اُن کے اندر ایک علیحدہ قومیت کا احساس پیدا کرکے اُن کو ایک جغرافیائی وجود حاصل کرنے کے جذبے سے سرشار کیا۔ مطالبۂ پاکستان کو مسلمانانِ برصغیر کا ایک اعلیٰ اور ارفع مقصدِ حیات بناکر اُن کے لیے ایک علیحدہ وطن پاکستان حاصل کیا۔
تاریخ شاہد ہے کہ پاکستان 14اگست 1947ء کو نہایت نامساعد حالات میں معرضِ وجود میں آیا تھا۔ ایسے حالات میں قائداعظم محمد علی جناح نے اپنے کردار اور افکار سے پاکستانی قوم کو زندہ رہنے کا حوصلہ دیا۔ اُن کو ایک لائحۂ عمل دیا تاکہ وہ اپنی مملکت کی حفاظت کرسکیں اور پاکستان کو ترقی و خوشحالی کی راہ پر ڈال سکیں۔ قائداعظم محمد علی جناح نے 23مارچ 1940ء کی قراردادِ پاکستان کی منظوری کے بعد سے ہی پاکستان کے حوالے سے غور و فکر شروع کردیا تھا۔ جیسا کہ آپ نے دسمبر 1943ء میں ایک انگریز صحافی بیورلے نکلس کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے فرمایا:
’’کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ اقتصادی لحاظ سے پاکستان ایک مفلوج ملک ثابت ہوگا، لیکن وہ اس حقیقت سے آشنا نہیں ہیں کہ مسلمان ایک سخت جان قوم ہیں۔ سخت کوش اور جفاکش۔ اگر پاکستان میں ایسا ہوا تو مسلمانوں کو کچھ اور جفاکش ہونا پڑے گا اور وہ کوئی شکوہ نہیں کریں گے‘‘۔
پاکستان ایک انتھک جدوجہد کے بعد انتشار اور افراتفری کے عالم میں قائم ہوا۔ یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ شاید ہی دنیا کی کسی اور قوم نے اپنی قومی زندگی کے سفر کا آغاز اس قدر محدود وسائل کے ساتھ کیا ہو۔ تاریخ کے اس انتہائی نازک مرحلے پر پاکستان کو اگر کچھ میسر تھا تو وہ قائداعظم کی تدبر و فراست سے لبریز قیادت تھی۔ قیام پاکستان کے بعد 27نومبر 1947ء کو آپ نے قوم کے نام ایک بیان میں فرمایا:
’’ہم کو جو کچھ حاصل کرنا ہے وہ یہ ہے کہ ہم اپنے عوام کو مجتمع کریں۔ اور اپنی آئندہ نسلوں کے کردار کی تعمیر کریں۔ فوری اور اہم ضرورت یہ ہے کہ ہم اپنے عوام کو سائنسی اور فنی تعلیم دیں تاکہ ہم اپنی اقتصادی زندگی کی تشکیل کرسکیں۔ ہمیں اس بات کا اہتمام کرنا ہوگا کہ ہمارے لوگ سائنس، تجارت، کاروبار اور بالخصوص صنعت و حرفت کو ترقی دینے کی طرف توجہ دیں۔ ہم کو دنیا کا مقابلہ کرکے خود کو ایک خودکفیل ملک بنانا ہے۔‘‘
قائداعظم نے اپنی تقاریر اور بیانات میں ہمیشہ پاکستانی قوم سے یہی فرمایا کہ وہ پاکستان کے استحکام اور قومی یکجہتی کے لیے خود کو وقف کردیں، کیوں کہ پاکستان ہی سب کچھ ہے۔ تحریکِ پاکستان کے دوران آپ نے متعدد بار یہ فرمایا کہ پاکستان کا حصول ہماری منزلِ مراد ہے۔ ہم پاکستان سے ہیں اور پاکستان ہم سے ہے۔ 11اگست 1947ء کو آپ نے پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:
’’ہم نے ایک بے مثال طوفانی انقلاب سے گزر کر پاکستان حاصل کیا ہے۔ اگر اب ہم اپنی مملکت پاکستان کو خوشحال اور ترقی یافتہ دیکھنا چاہتے ہیں تو ہمیں اپنی تمام تر توجہ عوام کی فلاح و بہبود پر مرکوز کردینی چاہیے۔ غریبوں کی جانب توجہ دینی چاہیے تاکہ وہ قومی امور میں ہاتھ بٹاسکیں۔ اگر ہم باہمی تعاون کے ساتھ کام کریں گے تو کامیابی اور ترقی یقیناًہمارے قدم چومے گی‘‘۔
پاکستان کے پہلے گورنر جنرل کی حیثیت میں اسلامیہ کالج پشاور کے طلبہ سے خطاب کرتے ہوئے قائداعظم نے فرمایا:
’’آپ کو صوبے کی محبت اور اپنی مملکت کی محبت کے درمیان فرق کو سمجھنا ہوگا۔ مملکت کی محبت ہم کو ایک ایسی سطح پر لے جاتی ہے جو صوبائی محبت سے بالاتر ہے۔ ہم کو بلند تر حب الوطنی کی ضرورت ہے۔ مملکت سے محبت کا تقاضا ہے کہ ہم اپنے ذاتی، مقامی یا صوبائی مفادات کو سارے ملک کے مفاد کے تابع کردیں‘‘۔
بانئ پاکستان قائداعظم محمد علی جناح پاکستان کو کن خطوط پر مستقبل میں استوار دیکھنا چاہتے تھے، یہ بات آپ کے افکار و خیالات سے بہت واضح ہے۔ قیامِ پاکستان سے قبل 17دسمبر 1944ء کو آپ نے تاجروں کے ایک استقبالیے سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا: ’’کسی بھی قوم کی پائیداری کا انحصار اقتصادیات پر ہوتا ہے۔ قوموں کے درمیان بڑی جنگیں بھی اقتصادی حکمت عملی سے لڑی جاتی ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ پاکستان حاصل کرنے کے بعد اس خطے میں مسلمان اقتصادی طور پر زیادہ مضبوط ہوجائیں گے‘‘۔
قائداعظم نے پاکستان کے قیام سے قبل ہی اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے مختلف تجارتی اور اقتصادی اداروں کی تشکیل شروع کردی تھی۔ آپ نے مسلم ایوان ہائے تجارت قائم کیے۔ بینکوں کی بنیاد رکھی۔ فضائی کمپنی قائم کی۔ جہاز رانی کا ایک ادارہ قائم کیا۔ یہ تمام اقدامات اس بات کی دلیل ہیں کہ قائداعظم پاکستان کو ترقی کی شاہراہ پر گامزن دیکھنا چاہتے تھے۔ آپ نے قیامِ پاکستان کی پہلی سالگرہ کے موقع پر قوم کے نام ایک پیغام میں فرمایا:
’’ قدرت نے آپ کو ہرچیز عطا کی ہے۔ آپ کے پاس غیر محدود وسائل موجود ہیں۔ آپ کی مملکت کی بنیاد رکھی جاچکی ہے۔ اب اس کی تعمیر آپ کا کام ہے۔ لہٰذا اس کی تعمیر کیجیے۔ جس قدر جلد اور عمدگی سے آپ یہ کام کرسکتے ہیں، کریں۔ آگے بڑھیے۔ میں آپ کی کامیابی کے لیے دعاگو ہوں‘‘۔
فروری 1948ء میں آپ نے فوجی افسروں اور نوجوانوں سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:
’’بحیثیت پاکستانی ہماری اس سے زیادہ کوئی خواہش نہیں کہ ہم خود بھی امن و سکون سے زندہ رہیں اور دوسروں کو بھی امن و امان کی فضا میں زندہ رہنے کا حق دیں۔ اپنے ملک کو اپنی صوابدید کے مطابق بغیر کسی بیرونی مداخلت کے ترقی دیں اور اپنے عوام کے حالات سدھاریں۔ بلاشبہ یہ ایک بہت بڑا کام ہوگا۔ اگر ہم صدقِ دل اور خلوص کے ساتھ کام کرنے کا ارادہ کرلیں اور اپنی قوم کے اجتماعی مفاد کی خاطر قربانیوں کے لیے آمادہ ہوجائیں تو ہم بہت جلد اپنے مقاصد کو حاصل کرلیں گے‘‘۔
آج پاکستان کے قیام کو 69 سال سے زائد کا عرصہ بیت چکا ہے۔ اب ہم کو دیکھنا یہ ہے کہ ہم نے بانئ پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کے ارشادات کی روشنی میں پاکستان کو پاکستان بنانے کی ذمہ داری پوری کی ہے یا نہیں۔ یقیناًیہ ایک ایسا سوال ہے جس پر بحیثیت قوم اور ایک سچے پاکستانی کے ہم کو ہر لمحہ غور کرنا چاہیے۔