کراچی(اسٹاف رپورٹر)محکمہ جنگلی حیات نے کراچی کے علاقے گلشن حدید کے گھر میں رکھے گئے شیر تحویل میں لے لیے ہے۔
محکمہ جنگلی حیات سندھ کے چیف کنزرویٹر جاوید مہر کے مطابق تحول میں لیے گئے شیروں کو کراچی چڑیاگھر منتقل کیاجائےگا اور شیروں کے کھانے پینے کا خرچہ بھی مالکان چڑیا گھر کو دیں گے۔
جاوید مہر کے مطابق اگر مالک ایک ماہ میں یہ شیر فروخت نہیں کرپایا تو تمام 6 شیر سرکاری ملکیت ہوجائیں گے۔
چیف کنزرویٹر محکمہ جنگلی حیات کے مطابق شہری زوہیب نے ڈیڑھ سال قبل لاہورکے کسی شخص سے شیرکے بچےخریدے تھے اور انہیں پنجروں میں شیروں کی فارمنگ اورکاروبارکی نیت سے رکھا گیا تھا۔
گلشن حدید کے ایک گھر میں رکھے گئے چار شیر اور دو چیتے کو محکمہ جنگلی حیات نے تحویل میں لیتے ہوئے اِن کے مالک کو ان درندوں کو فروخت کرنے کے لیے ڈیڑھ ماہ کی مہلت دی ہے۔
گذشتہ دنوں یہ معاملہ اس وقت سامنے آیا جب گلشنِ حدید کے علاقے میں قومی شاہراہ کے قریب واقع ایک گھر کی چاردیواری کے اندر شیر کو مٹر گشت کرتے دیکھ کر پڑوسیوں میں خوف و ہراس پھیل گیا اور انھوں نے سوشل میڈیا کے ذریعے اس حوالے سے شکایت کی۔
اس کے بعد سندھ کے محکمہ جنگلی حیات متعلقہ مقام پر پہنچے جہاں سے انھوں نے دو شیروں اور ایک چیتے کا جوڑا برآمد کیا۔ حکام کے مطابق ان جانوروں کے مالک طلب کرنے پر ان جانوروں کو رکھنے کا اجازت نامہ فراہم نہیں کر سکے۔
شیروں کے مالک زوہیب کو مشروط اجازت دی گئی ہے کہ وہ ڈیڑھ ماہ کے اندر ان شیروں اور چیتوں کو فروخت کر سکتے ہیں اور پاکستان کا کوئی بھی سرکاری یا نجی چڑیا گھر، ٹرسٹ، یا غیر سرکاری تنظیم انھیں خرید سکتے ہیں۔
ابتدائی طور پر مالک کو حراست میں لیا گیا تھا بعد ازاں انھیں ضمانت پر رہا کر دیا گیا۔
محکمہ جنگلی حیات سندھ کے چیف کنزرویٹر جاوید مہر نے قانون میں حاصل سول جج کے اختیارات استعمال کرتے ہوئے اس مقدمے کی سماعت کی اور جمعرات کو اس کیس میں ملزم ذوہیب کی موجودگی میں فیصلہ پڑھ کر سنایا گیا ہے۔
جاوید مہر کا کہنا تھا کہ زوہیب کے پاس شیر رکھنے کا اجازت نامہ موجود نہیں تھا، اور انھوں نے ’منِی زو‘ کا جو لائسنس پیش کیا اس کی معیاد بھی پوری ہو چکی تھی۔
ان کے مطابق قانون کے تحت شیر اور چیتے انسانی آبادی میں نہیں رکھے جا سکتے اور اس حوالے سے نیشنل کونسل فار کنزرویشن آف وائلڈ لائف کی واضح ہدایات موجود ہیں، لہٰذا یہ شیر اور چیتے حکومتی تحویل میں لے کر کراچی زولوجیکل گارڈن میں بطور امانت منتقل کیے جائیں گے۔
زوہیب کو مشروط اجازت دی گئی ہے کہ وہ ڈیڑھ ماہ کے اندر ان شیروں اور چیتوں کو فروخت کر سکتے ہیں اور پاکستان کا کوئی بھی سرکاری یا نجی چڑیا گھر، ٹرسٹ یا غیر سرکاری تنظیم انھیں خرید سکتے ہیں، تاہم سرکاری چڑیا گھر کے علاوہ کسی کو بھی ان کی افزائش نسل کی اجازت نہیں ہو گی۔
فیصلے کے مطابق اگر مقررہ وقت کے اندر زوہیب ان شیروں کو شرائط کے مطابق فروخت نہ کر سکے تو پھر انھیں بحق سرکار ضبط سمجھا جائے گا۔
عدالتی فیصلے کے مطابق ملزم ایک حلف نامہ بھی جمع کروائیں گے جس میں وہ مستقبل میں اس غیر قانونی کاروبار میں ملوث نہ ہونے کی یقین دہائی کروائیں گے اور اس حوالے سے علاقے کے کسی معزز شخصیت کی ضمانت حاصل کی جائے گی۔
حکم کے تحت ذوہیب علاقے میں خوف پھیلانے پر مقامی لوگوں سے معذرت بھی کرنے کے پابند ہوں گے۔
ذوہیب نے فیصلہ سننے کے بعد کہا کہ وہ ان جانوروں کو شہر کے ایک نجی چڑیا گھر میں منتقل کرنا چاہتے ہیں جہاں مطلوبہ سہولیات دستیاب ہیں تاہم عدالت نے واضح کیا کہ یہ صرف سرکاری چڑیا گھر میں ہی منتقل ہو سکتے ہیں۔
محکمہ جنگلی حیات سندھ کے چیف کنزیرویٹر جاوید مہر نے زوہیب پر واضح کیا کہ ان شیروں اور ٹائیگرز کے ڈی این اے نمونے لیے جائیں گے اور اگر فیصلے کے برعکس خریدار نے ان کی افزائش نسل کی تو ملزم کو 20 لاکھ روپے جرمانے کے علاوہ قید کی سزا بھی سنائی جا سکتی ہے۔
پاکستان میں بگ کیٹس (شیر، چیتے، تیندوے) کی تفریح کے مقصد کے لیے درآمد کی اجازت دی گئی تھی تاہم ان کی افزائش نسل پر پابندی ہے۔محکمہ جنگلی حیات سندھ کے چیف کنزرویٹر جاوید مہر نے بتایا کہ بعض درآمد کنندگان نے ان کی افزائش نسل کی اور ان کی مقامی خرید و فروخت کا سلسلہ شروع کر دیا جس سے ان شیروں کی تعداد میں اضافہ ہونے لگا۔
انھوں نے بتایا کہ نیشنل کونسل فار کنزرویشن آف وائلڈ لائف کی بگ کیٹس سے متعلق گائیڈ لائنز میں بگ کیٹس کی افزائش نسل پر پابندی ہے اور ان کی ایک دوسرے سے افزائشِ نسل بھی نہیں کروائی جاسکتی، لیکن اس کی خلاف ورزی کی جارہی ہے اور اس وقت پاکستان میں فارمی شیروں کی افزائش نسل ہو رہی ہے۔
ان کے مطابق اس سے ان کی جنگلی اور خونخوار جانور والی جبلت ختم ہو جاتی ہے اور وہ بلی کی طرح کے پالتو جانور بن جاتے ہیں جن کے پنجے اور جبڑے بھی آپریشن کر کے نکال دیے جاتے ہیں۔
خیال رہے کہ ایک روز قبل کراچی کے علاقے گلشن حدید کے معظم ٹاؤن میں شیر کمپاؤنڈ سے باہر نکل آئے تھےجس سے علاقے میں خوف و ہراس پھیل گیا تھا۔