کنجوسی کی نفسیات

258

ایس امین الحسن

سماج میں کچھ لوگ فراخ دل اور کشادہ دست ہوتے ہیں، ان کے برعکس کچھ لوگ تنگ دل اور کم ظرف ہوتے ہیں۔ فراخ دست انسان سماج میں محبوب ہوتا ہے جب کہ بخیل انسان سماج میں ایک ناپسندیدہ کردار مانا جاتا ہے۔ داد ودہش والا انسان سماج سے جڑا ہوتا ہے اور بے کرم انسان لوگوں سے کنارا رکھتا ہے۔ ہر سماج میں حاتم طائی کردار کے لوگوں کے واقعات نسل در نسل لوگ یاد رکھتے ہیں، جب کہ کنجوسوں اور بخیلوں کے قصے عوام کے دل بہلاوے کے لیے لطیفے بن جاتے ہیں۔ فراخ دلی اور تنگ دلی کو عموماً انفاق اور سماج میں خرچ کرنے کے حوالے سے سمجھا جاتا ہے جب کہ ان کے مطلب میں اس سے زیادہ وسعت پائی جاتی ہے، جس پر گفتگو الگ سے کبھی ہوگی۔ تنگ دل اور بخیل انسان کے بارے میں نبی اکرمؐ نے فرمایا: سخی آدمی اللہ سے قریب، جنت سے قریب، لوگوں سے قریب اور جہنم سے دور ہے، بخیل آدمی اللہ سے دور، جنت سے دور، لوگوں سے دور، اور جہنم سے قریب ہے، جاہل سخی اللہ کے نزدیک بخیل عالم سے کہیں زیادہ محبوب ہے۔ (ترمذی)
تنگ دل آدمی پیسوں کے معاملے میں بہت حساس ہوتا ہے اور انھیں سینت سینت کر رکھنا اس کی عادت ہوتی ہے۔ کبھی کبھی وہ پیسے بچانے کے لیے پیسہ خرچ کرتا ہے۔ پیسے بچانے کے لیے وقت کا زیاں اس کے نزدیک کوئی احمقانہ بات نہیں ہوتی۔ پیسے بچانا اس کا مقصد اول ہوتا ہے یہاں تک کہ وہ اپنے نفس کی ضرورتوں کو بھی جبرا دبائے رکھتا ہے تاکہ دو پیسے بچ جائیں۔ دوستوں کے ساتھ ملنا جلنا اس کے لیے گھبراہٹ کا باعث ہوتا ہے، اس لیے کہ پتا نہیں کب خرچ کرنے کا مطالبہ ہوجائے۔ ایک مہا کروڑ پتی کے ساتھ مجھے شہر میں ادھر ادھر گھومنے کا موقع ملا اور انھوں نے خود بتایا کہ وہ اپنی جیب میں سو روپے سے زیادہ نہیں رکھتے۔ کنجوس آدمی کو مارے مجبوری کے کبھی چائے پلانے کا موقع آگیا تو ’کٹ جائے‘ تلاش کرے گا۔ بخیل کی تمنا ہوتی ہے کہ لوگ اس کے ساتھ فراخی کا برتاؤ کریں اور وہ خود کسی کے لیے تحفہ تک لے جانے کا روادار نہیں ہوتا، اس پر ستم یہ کہ وہ تحفہ دینے کے خلاف دلائل بھی رکھتا ہے کہ سماج نے خواہ مخواہ زندگی کو بوجھل بنا دیا ہے، اس لیے میں ان رسوم کا مخالف ہوں۔
شُح نفس کے مریض کی ایک پہچان یہ ہے کہ وہ راہ خدا میں خرچ کرنے سے کترائے گا اور کوئی اس سے پوچھ بیٹھے تو اپنی شاہ خرچی کی لمبی فہرست پیش کرے گا۔ قرآن نے ایسے لوگوں کا کردار پیش کیا ہے:
’’کہتا ہے کہ میں نے ڈھیروں مال اڑا دیا‘‘! (سورہ البلد: 6-7)
اس طرح کے لپاٹئے لوگوں کی نفسیات کی بہترین تصویر کشی مولانا امین احسن اصلاحیؒ نے اپنی تفسیر تدبر قرآن میں کی ہے۔ اس کردار کا عنوان دیا ہے: ’فاسد ذہنیت سے فاسد کردار‘ پھر لکھتے ہیں:
اوپر کی آیت میں ان کی اس ذہنیت سے پردہ اٹھایا گیا ہے جس میں مال و جاہ کی فراوانی نے ان کو مبتلا کر دیا تھا۔ اس آیت میں ان کے اس کردار سے پردہ اٹھایا جا رہا ہے جو اس فاسد ذہنیت نے ان کے اندر پیدا کیا۔جن کے اندر یہ گھمنڈ پیدا ہوجاتا ہے کہ ان کو جو مال وجاہ حاصل ہے یہ ان کا پیدائشی حق اور ان کی قابلیت وہنر کا کرشمہ ہے، ان کے اندر انفاق کا جذبہ بالکل مردہ ہوجاتا ہے اس لیے کہ ان کو نہ خدا کی پروا رہ جاتی نہ آخرت کی۔ اس طرح کے لوگ اپنی بخالت پر پردہ ڈالے رکھنے کے لیے مستحقین کے سامنے ہمیشہ اپنے وسیع مصارف کا رونا روتے رہتے ہیں اور اس طرح ان کو باور کرانے کی کوشش کرتے ہیں کہ انھیں ذاتی مصارف کے علاوہ قومی واجتماعی مصارف پر اتنا خرچ کرنا پڑتا ہے کہ وسیع ذرائع آمدنی رکھنے کے باوجود مشکل ہی سے کچھ پس انداز ہوتا ہے۔ یہی طریقہ وہ ان لوگوں کو چپ کرنے کا اختیار کرتے ہیں جو ان کو خدا اور آخرت کے نام پر انفاق کی دعوت دیتے ہیں۔ ان کو وہ جواب دیتے ہیں کہ آخر کہاں تک خرچ کیے جائیں! ڈھیروں مال تو اسی طرح کے مصارف پر اٹھا چکے ہیں!
خدا کی راہ میں انفاق کرنے والا جب کچھ دیتا ہے تو اسے انتہائی خوشی حاصل ہوتی ہے۔ دوسری طرف ایک بخیل انسان سے کچھ مانگا جاتا ہے تو اس کا دل تنگ ہونے لگتا ہے۔ قرآن اس کے لیے شح نفس کی اصطلاح استعمال کرتا ہے۔
ترجمہ: ’’لہٰذا جہاں تک تمہارے بس میں ہو اللہ سے ڈرتے رہو، اور سنو اور اطاعت کرو، اور اپنے مال خرچ کرو، یہ تمہارے ہی لیے بہتر ہے جو اپنے دل کی تنگی سے محفوظ رہ گئے بس وہی فلاح پانے والے ہیں‘‘۔ (سورہ التغابن:16)
تنگ دل انسان غربت کے موہوم اندیشے میں مبتلا رہتا ہے۔ یہ بھی ایک قسم کا اضطراب ہے۔ اسے ڈر لگتا ہے کہ کہیں وہ غریب نہ ہوجائے۔ اسے اپنی عزت نفس سے زیادہ مرغوب شئے دولت ہوتی ہے۔ وہ چمڑی جائے پر دمڑی نہ جائے کے مصداق اپنی خودی کو بیچ کر دولت کی حفاظت کرتا ہے۔ تنگ دل انسان وہ نہیں جو دوسروں کو اپنی تنگ دستی کے سبب نہ دے بلکہ وہ ہے جس کے پاس دوسروں کو دینے کے بعد بھی اس کے معیار زندگی میں کوئی فرق واقع نہیں ہو تب بھی اپنی دولت کے ایک چھوٹے سے حصے میں دوسروں کو شریک کرنے کا روادار نہ ہو۔
تنگ دل انسان تبدیلی اور زوال دو چیزوں سے ڈرتا ہے۔ جب کہ کائنات کی یہ دو عظیم حقیقتیں ہیں۔ جدھر نگاہ اٹھاؤ ادھر ہر آن تبدیلی رونما ہورہی ہے۔
سکْوں محال ہے قدرت کے کارخانے میں
ثبات ایک تغیّر کو ہے زمانے میں
ایک تنگ دل انسان زمانے کے ساتھ منجمد رہنا پسند کرتا ہے۔ گھر میں نئے برتن، نئے پردے، نئی چادریں، اور نئے کپڑے خریدنا، دنیا کے حسین مناظر سے لطف اندوز ہونے کے لیے سفر کرنا، یہ سب تبدیلی کے مطالبے ہوتے ہیں جن کے پیچھے کچھ خرچ آتا ہے۔ تنگ دل انسان ایسی تبدیلیوں سے گھبراتا ہے۔
تنگ دل انسان اس حقیقت کو تسلیم نہیں کرتا کہ اس کائنات میں ہر عروج کے بعد زوال ہے، جوانی کے بعد بڑھاپا آتا ہے، پھل دار درخت ایک دن بانجھ ہوجاتا ہے اور پھر اس کی لکڑی جلانے کے کام آتی ہے۔ اسی طرح دولت پر بھی زوال آنا یقینی ہے، عقل مندی یہ ہے کہ اس کے آنے سے پہلے انسان خرچ کرکے اپنے لیے آخرت کی ذخیرہ اندوزی کرلے۔
ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں: رسول اللہؐ نے فرمایا: ’’بندہ (ترنگ میں آکر)کہتا ہے: میرا مال، میرا مال حالاں کہ اْس کے (جمع کیے ہوئے) مال میں سے اْس کا حصہ صرف تین قسم کا مال ہے: جو اْس نے کھالیا اور فنا ہوگیا یا جو اْس نے پہن لیا اور بوسیدہ ہوگیا یا جو اْس نے اللہ کی راہ میں دے دیا اور وہ اْس کے لیے ذخیرۂ آخرت بن گیا، اس کے سوا جو کچھ بھی ہے (وہ اس کا نہیں ہے) وہ تو (آخرت کا راہی ہے، وقت آنے پر) چلا جائے گا اور (اپنا تمام جمع کیا ہوا مال وارثوں کے لیے) چھوڑ جائے گا‘‘۔ (صحیح مسلم)
انسانی نفسیات کا اثر اس کے جسم پر پڑتا ہے یا یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ جسم میں جو کچھ ہوتا ہے اس کے پیچھے اس کی ذہنی کیفیت کی کارفرمائی ہوتی ہے۔ یہ ایک نیا اور اختلافی موضوع ہے۔ جسم کو لاحق ہونے والی بعض بیماریوں کی ایک وجہ یہ بھی ہوتی ہے کہ انسان بخیل ہوتا ہے، اور بخیلی کی وجہ سے اضطراب، بے چینی اور غیر یقینی صورت حال میں مبتلا رہتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جو شخص دولت کا پجاری ہوتا ہے وہ نفس کا مارا انسان زندگی کے حقیقی لطف سے محروم رہتا ہے۔ اگر اسے ارتقائی مرحلے طے کرنا ہے تو لازم ہے کہ وہ شعور کی اعلی سطح سے زندگی گزارے۔ ایک تنگ دل آدمی روحانی طور پر لاغر انسان ہوتا ہے۔ حالات، شکایات اور لوگوں کی غلطیوں کو پکڑے رکھنے سے کہیں زیادہ صحت کے لیے بہتر ہے کہ درگزر کا رویہ اختیار کیا جائے۔
تنگ دلی ایک نفسیاتی بیماری ہے جس میں مبتلا شخص صرف دنیا سے لینا جانتا ہے دنیا کو دینا نہیں جانتا۔ یہ بنی اسرائیل اور منافقین کی خصلتوں میں شمار ہوتا ہے۔ اس کے برعکس اہل ایمان کی اعلی ترین خصوصیات میں سے ایک یہ ہے کہ وہ راہ خدا میں بے دریغ خرچ کرتے ہیں۔ اور یہ نہیں کہ وہ صاحب ثروت ہونے کے بعد ایسا کرتے ہیں بلکہ جب خود تنگی اور محتاجی کا شکار ہوتے ہیں اس وقت بھی ایثار کرتے ہوئے وہ اپنی ذات پر دوسروں کو ترجیح دیتے ہیں۔