کھانے کے بعد کی دعا

227

حکمت ومصلحت

ابو سعید خدریؓ سے روایت ہے کہ رسو لؐ جب اپنے کھانے سے فارغ ہوتے تھے تو یہ دعا پڑھتے تھے:
الحمدْ لِلّٰہِ الَّذی اطعَمَنَا وسَقَانَا، وجَعَلَنَا مْسلِمِینَ۔ (ایک روایت میں ’’جَعَلَنَا مِنَ المْسلِمینَ‘‘ کے الفاظ ہیں، کنز العمال، ابوداؤد)
ترجمہ: حمد وشکر اْس اللہ کے لیے جس نے ہمیں کھانے اور پینے کو دیا اور (اِس سے بھی بڑا کرم یہ فرمایا کہ) ہمیں مسلمان بنایا۔
تشریح: اللہ تعالیٰ نے انسانی زندگی کے لیے غذا کو لازم قرار دیا ہے اور جب یہ غذا استعمال کرلی گئی اور انسانی ضرورت پوری ہو گئی تو اِس موقع پر بھی اِسلام نے اپنے ماننے والوں سے کہا کہ اِس نعمت کے حصول پر اپنے پروردگار کا شکریہ ادا کرو اور یہی وہ آداب وتہذیب ہیں جن کی وجہ سے مومن اور کافر کے مابین انداز ِ زیست میں فرق ہوتا ہے، کھانے پینے کے تعلق سے اِسلام کی تعلیم کا خلاصہ یہ ہے کہ خوردن برائے زیستن ہونا چاہیے، بندہ مومن کھائے پیے؛ مگراِس لیے کہ قوت ونشاط کے ساتھ زندگی کو خدا کی اطاعت وفرماں برداری میں گذار سکے اور دیگر اقوام کا فلسفہ زیستن برائے خوردن کا ہے، وہ دنیا کی نعمتوں کو جلد سے جلد اور زیادہ سے زیادہ سمیٹنا چاہتے ہیں، نتیجے کی پروا کیے بغیر اپنے پیٹ بھرتے ہیں؛ چوں کہ اللہ رب العزت اِس بات سے بہت خوش ہوتے ہیں کہ ان کا شکریہ ادا کیا جائے؛ اِس لیے اِسلام نے اِس خاص موقع پر شکر کی تلقین کی اور اِس سلسلے میں دعا بتلائی۔ مذکورہ دعا رسول اللہؐ کی زبان مبارک سے نکلی ہوئی دعا ہے؛ اِس لیے اِس کی بڑی اہمیت ہے، یہ دعا ہمیں بتاتی ہے کہ اللہ کی عطا کردہ نعمتوں اور اْس کی دی ہوئی غذاؤں سے فائدہ اٹھانے کے بعد شکر کے موزوں ترین الفاظ کیا ہوسکتے ہیں۔
حکمت اور پیغامِ نبوی
اس موقع پر شکر کے دو پہلو ہیں: ایک یہ کہ دنیا میں اس جیسے بے شمار افراد بھوک پیاس میں گرفتار ہیں، جنہیں ضرورت کے مطابق غذا نہیں مل رہی ہے، دوسرا یہ کہ کتنے ہی ایسے انسان ہیں جنھیں انواع واقسام کی نعمتیں حاصل ہیں؛ لیکن وہ صحت کی خرابی یا کسی اور وجہ سے اِس قابل نہیں کہ ان سے فائدہ اٹھا سکیں، اِس صورت ِحال میں یہ اللہ ہی کا کرم واحسان ہے کہ اْس نے پاکیزہ غذا عطا کی اور اْس سے اِستفادے کے قابل بھی بنایا، جب انسان اِس طرح سوچتا ہے تواْس کے اندر حقیقتوں کو سمجھنے اور ماننے کی صلاحیت پیدا ہوتی ہے اور صبر، شکر اور قناعت کے پاکیزہ جذبات ابھرتے ہیں، مذکورہ دعا میں یہ پیغام ہے کہ انسان کی باطنی کیفیات اور جذبات کا انسان کے ظاہر پر اثر پڑتا ہے؛ چنانچہ جو غذا اللہ کا نام لے کر استعمال کی جائے اور جس کے بعد اللہ کی حمد وثنا ہو اس کے پاکیزہ اور خوش گوار اثرات بھی انسان کی صحت پر دیکھے جاسکتے ہیں، اِس مقصد کے حصول کے لیے کھانے سے پہلے اور کھانے کے بعد دعائیں مقرر ہوئیں۔
اللہ تعالیٰ نے ہمیں رزق دیا اور اِس کے ساتھ ساتھ اْسے کھانے کی اہلیت بھی دی؛ گویا ہمیں دو نعمتیں حاصل ہوگئیں، پس ہمیں شکر ِالٰہی کو بجا لانا چاہیے؛ ورنہ تو بہت سے بندگانِ خدا ایسے ہیں جنھیں رزق ہی حاصل نہیں یا رزق حاصل ہے، لیکن بیماری کی وجہ سے کھا نہیں سکتے، پس اْس ذات کے ہمیں کھلانے پر ہم اْس کے شکر گذار ہیں اور اگر کھانے کے لیے کھانا ہو؛ لیکن پانی نہ ہو تو کھانا عذاب بن جائے گا، گویا پانی،کھانے کا تکملہ ہے، ہمیں یہ بھی نصیب ہوا؛ اِس لیے اِس پر بھی خدا کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔
مذکورہ دعا کے ذریعے سے یہ پیغام دیا جارہا ہے کہ ابھی تمھیں کھانا اور پانی مل گیا، آئندہ کیا ہوگا معلوم نہیں، پس تم کھانے پینے کے بعد اللہ کا شکریہ ادا کرلیا کرو، ان شاء اللہ تمھیں آئندہ بھی محرومی نہیں ہوگی؛ کیوں کہ ارشاد خداوندی کا مفہوم ہے: شکر ِخدا، نعمتوں میں اضافہ اور نعمتوں کی بقا کا سبب ہے۔ (ابراہیم:7)
مذکورہ دعا میں مسلمانوں سے یہ اپیل ہے کہ کھانا کھانے کے بعد صدق دل سے یہ اعتراف کرنا چاہیے کہ یہ کھانا مجھے میرے پروردگار نے عطا فرمایا ہے، میرے کسی ہنر اور کسی صلاحیت اور زور ِ بازو کا کرشمہ نہیں ہے، مجھے جو کچھ ملا ہے وہ صرف کرمِ الٰہی کا نتیجہ ہے، ایک روایت میں ہے کہ اِس طرح شکریہ ادا کرنے کی وجہ سے انسان کے پچھلے سارے گناہ بخش دیے جائیں گے۔ (ترمذی)
کھانا، پینا ظاہری نعمت ہے، دعا کے آخری حصے میں یہ پیغام ہے کہ تمہاری نظر صرف ظاہری نعمتوں پر نہ ہو؛ بلکہ باطنی اور روحانی نعمتوں کا استحضار بھی رکھو؛ چنانچہ باطنی نعمتوں میں اِسلام سب سے بڑی نعمت ہے اور وہ نعمت بھی تمھیں ملی ہوئی ہے؛ پس اِس پر بھی شکر ادا کرو۔ (مرقاۃالمفاتیح)
کھانے پینے میں انسان کو کچھ خصوصیت حاصل نہیں ہے؛ بلکہ جانور بھی کھاتے پیتے ہیں، اِن دونوں میں فرق کرنے کے لیے دعا کے اخیر میں’’جعلنا مسلمین‘‘ کا اضافہ ہے کہ ہدایت ِ اسلام کی وجہ سے انسان اورجانور اور مسلمان اور غیر مسلمین میں فرق ہوتا ہے، پس مسلمان کو اِس موقع پر، خاص طور سے اسلام کی دولت ملنے پر، شکر گذار ہونا چاہیے۔ (التیسیر بشرح الجامع الصغیر)
جس طرح ہم بغیر جسمانی خوراک کے نشوونما نہیں پاسکتے، اِس سے کہیں بڑھ کر ہم روحانی غذا کے محتاج ہیں، جو اِسلام کی اَبدی اور روحانی غذا ہے (اِس لیے دعا کے ذریعے سے مطلوبہ روحانی غذا کی درخواست کی گئی ہے)۔ (چالیس دعائیں)
انسان پر یا تو خدا کی نعمتوں کا غلبہ ہوتا ہے یا پھر وہ کسی مصیبت میں گرفتار ہوتا ہے، پہلی صورت میں اسے اللہ کا شکر کرنے کی ہدایت ہے اور دوسری صورت میں صبر واستقامت کی تلقین، جو لوگ ایمان کے ساتھ شکر اور صبر کے تقاضے پورے کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں وہی آخرت میں کامیاب ہوں گے، اکثر علما کہتے ہیں کہ صبر کے مقابلے میں شکر کا امتحان زیادہ مشکل ہے، شکر کرنا جتنا آسان ہے اتنا ہی مشکل ہے، آسان اِس لیے کہ زبان یا دل یا عمل سے اللہ کی نعمتوں کا اعتراف کیا جاتا ہے اور مشکل اِس لیے ہے کہ جب نعمتیں ملتی رہتی ہیں تو انسان اْن نعمتوں کو اپنا حق سمجھنے لگتا ہے اور شکر ِ الٰہی سے محروم ہوجاتا ہے، مذکورہ دعا میں یہ پیغام ہے کہ کھانے اور پینے کی نعمت انسان کو روز ملتی ہے، اِس نعمت کو کہیں وہ اپنا حق نہ سمجھ بیٹھے اور خدا فراموشی میں مبتلا ہوکر اپنی عاقبت خراب کرلے؛ اِس لیے اْسے اِس موقع پر شکر کی تلقین کی گئی اور اْسے یاد دلایا گیا کہ تمھیں تو سب سے بڑی نعمت ’’ایمان و اسلام‘‘ حاصل ہے اور ادنیٰ نعمتوں پر بھی شکر ِالٰہی میں سجدہ ریز ہوجانا اسلامی حمیت کا تقاضا بھی ہے اور اِسلام کا نتیجہ بھی ، کیا ہمارا اِسلام ایسا ہے جو ہمیں ہر وقت اللہ کا شکریہ ادا کرنے پر ابھارتا ہے؟ اللہ ہمیں عقلِ سلیم اور فہمِ متین عطا فرمائے۔