افکار سید ابو الاعلی مودودی ؒ

132

اطاعت میں آجاؤ
اپنی زندگی کے کسی پہلو اور کسی شعبے کو بندگی رب سے محفوظ کرکے نہ رکھو۔ اپنے تمام وجود کے ساتھ، اپنی پوری ہستی کے ساتھ خدا کی غلامی و اطاعت میں آجاؤ۔ زندگی کے کسی معاملے میں بھی تمھارا یہ طرز عمل نہ ہو کہ اپنے آپ کو خدا کی بندگی سے آزاد سمجھو۔
(دعوت اسلامی اور اس کا طریقہ کار)
٭…٭…٭
اسلام کی حکومت
اس دنیا میں نازیت، کمیونزم، سرمایہ دارانہ جمہوریت چل سکتی ہے تو اسلام کیوں نہیں چل سکتا، اسلام دوسرے نظاموں کی نسبت فطرت کے قریب ہے، بلکہ عین فطرت ہے اس لیے آپ فرض کو پہچانیں اور جس چیز کو آپ حق سمجھتے ہیں اس کو چلانے کی کوشش کریں۔
(تصریحات)
٭…٭…٭
ہمارا طرز عمل
ہمارا طریقہ جھگڑے اور مناظرے کرنا نہیں ہے۔ اگر کوئی شخص ہماری بات کو سیدھی طرح سمجھنا چاہے تو ہم ہر وقت اْسے سمجھانے کے لیے حاضر ہیں، اور اگر کوئی ہماری غلطی ہمیں معقول طریقے سے سمجھانا چاہے تو ہم سمجھنے کے لیے بھی تیار ہیں۔ لیکن اگر کسی کے پیش نظر محض اْلجھنا اور اْلجھانا ہی ہو تو اس سے ہم کوئی تعرض کرنا پسند نہیں کرتے۔ اسے اختیار ہے کہ جب تک چاہے اپنا شغل جاری رکھے۔ (شہادت حق)
٭…٭…٭
ہدایت کے سرچشمے
انسان کے لیے ہدایت کے سر چشمے دو ہی ہیں ایک کتاب اللہ دوسرا اسوہ رسولؐ۔ ان ذریعوں سے جس نے ہدایت نہ پائی اس کے لیے پھر کوئی تیسرا ذریعۂ ہدایت نہیں ہے۔ (تصریحات)
٭…٭…٭
قوت نافذہ
اگر دنیا میں کوئی ایسی قوت موجود ہو جو بَدی کے خلاف پیہم جہاد کرتی رہے اور تمام سرکش قوتوں کو اپنی اپنی حدود کی پابندی پر مجبور کر دے تو نظامِ تمدن میں یہ بے اعتدالی ہرگز نظر نہ آئے۔
کہ آج سارا عالَمِ انسانی ظالموں اور مظلوموں، آقاؤں اور غلاموں میں بٹا ہوا ہے، اور تمام دنیا کی اخلاقی و روحانی زندگی کہیں غلامی و مظلومی کے باعث اور کہیں غلام سازی و جفا پیشگی کے باعث تباہ و برباد ہو رہی ہے۔ (الجہاد فی الاسلام)
٭…٭…٭
نیکی کو چھوڑنا
نیکی کو نہتا چھوڑ دینا اور اللہ کی دی ہوئی قوتوں کو اس کی حفاظت کے لیے استعمال نہ کرنا صرف خود کْشی ہی نہیں ہے بلکہ بدی و شرارت کی بالواسطہ امداد بھی ہے۔
حقیقتًا یہ کوئی نیکی نہیں ہے کہ ظالموں کو عمداً ظلم کا موقع دیا جائے اور مفسدوں کو جان بوجھ کر فساد پھیلانے کی آزادی دے دی جائے۔ (الجہاد فی الاسلام)
٭…٭…٭
صداقت و انصاف
کسی معاشرے کے لیے اِس سے بڑھ کر نقصان دِہ کوئی چیز نہیں ہو سکتی کہ اْس میں جب بھی کسی کو کسی سے اختلاف ہو تو وہ ’’جنگ میں سب کچھ حلال ہے‘‘ کا اِبلیسی اصول اختیار کر کے اْس پر ہر طرح کے جھوٹے الزامات لگائے، اْس کی طرف جان بوجھ کر غلط باتیں منسوب کرے، اْس کے نقطۂ نظر کو قصدًا غلط صورت میں پیش کرے، سیاسی اختلاف ہو تو اْسے غدّار اور دشمنِ وطن ٹھہرائے، مذہبی اختلاف ہو تو اْس کے پورے دین و ایمان کو مْتہم کر ڈالے اور ہاتھ دھو کر اْس کے پیچھے اِس طرح پڑ جائے کہ گویا اب مقصدِ زندگی بس اْسی کو نیچا دکھانا رہ گیا ہے۔
اختلاف کا یہ طریقہ نہ صرف اخلاقی لحاظ سے معیوب اور دینی حیثیت سے گناہ ہے، بلکہ عملًا بھی اس سے بیشمار خرابیاں پیدا ہوتی ہیں۔ اِس کی بدولت معاشرے کے مختلف عناصر میں باہمی عداوتیں پرورش پاتی ہیں۔ اس سے عوام دھوکے اور فریب میں مبتلا ہو جاتے ہیں اور اختلافی مسائل میں کوئی صحیح رائے قائم نہیں کر سکتے۔ اِس سے معاشرے کی فضا میں وہ تکدّر پیدا ہو جاتا ہے جو تعاون و مفاہمت کے لیے نہیں بلکہ صرف تصادم و مزاحمت ہی کے لیے سازگار ہوتا ہے۔ اِس میں کسی شخص یا گروہ کے لیے عارضی منفعت کا کوئی پہلو ہو تو ہو، مگر بحیثیت مجموعی پوری قوم کا نقصان ہے جس سے بالآخر خود وہ لوگ بھی نہیں بچ سکتے جو اختلاف کے اِس بے ہودہ طریقے کو مفید سمجھ کر اختیار کرتے ہیں۔ (تفہیمات پنجم)
٭…٭…٭
نیکی کا تصور
نیکی کو نہتّا چھوڑ دینا اور اللہ کی دی ہوئی قوتوں کو اس کی حفاظت کے لیے استعمال نہ کرنا صرف خودکشی ہی نہیں ہے بلکہ بدی و شرارت کی بالواسطہ امداد بھی ہے۔
حقیقتًا یہ کوئی نیکی ہی نہیں ہے کہ ظالموں کو عمداً ظلم کا موقع دیا جائے اور مُفسدوں کو جان بوجھ کر فساد پھیلانے کی آزادی دے دی جائے۔ (الجہاد فی الاسلام)
٭…٭…٭
برداشت کا تصورِ دین
قرآنِ حکیم نے سب معاملات میں تحمّل و برداشت کی تعلیم دی ہے مگر ایسے کسی حملے کو برداشت کرنے کی تعلیم نہیں دی جو دینِ اسلام کو مٹانے اور مسلمانوں پر اسلام کے سوا کوئی دوسرا نظام مسلّط کرنے کے لیے کیا جائے۔ اس نے سختی کے ساتھ حکم دیا ہے کہ جو کوئی تمہارے انسانی حقوق چھیننے کی کوشش کرے، تم پر ظلم و سِتم ڈھائے، تمہاری جائز ملکیتوں سے تم کو بے دخل کرے، تم سے ایمان وضمیر کی آزادی سلب کرے، تمہیں اپنے دین کے مطابق زندگی بسر کرنے سے روکے، تمھارے اجتماعی نظام کو درہم برہم کرنا چاہے اور اس وجہ سے تمھارے درپے آزار ہو کہ تم اسلام کے پیرو ہو، تو اس کے مقابلے میں ہرگِز کمزوری نہ دکھاؤ اور اپنی پوری طاقت اس کے اِس ظلم کو دفع کرنے میں صَرف کر دو۔ (الجہاد فی الاسلام)