جلوہ گاہ

240

ساجدہ فرحین فرحی

میرے سلطان کا فاطمہ گل سے عشق ممنوع یہ عنوان ہے کراچی آرٹس کونسل میں جاری تھیٹر کا جو کہ تین مشہور ترکش ڈراموں کے ناموں کو ملا کر بنایا گیا ہے اور اس کی خاص بات ہے ان کرداروں کو ادا کرنی والی شخصیات، جو ادا کارنہیں بلکہ سیاست داں ہیں ۔آخر سیاست دانوں کو کیا ضرورت پیش آئی اداکاری کرنے کی وہ بھی تھیٹر میں ۔کیوں کہ یہ کہانی ہے مستقبل 2030 کی جب ایک بار پھرمارشل لا لگادیا جاتا ہے ۔ تھیٹر کے آغاز میں کہا جاتا ہے کہ اس ملک کا پاکستان سے کوئی تعلق نہیں اور یہ کہا نی ہے BNANISTAN کی جہاں مارشل لا لگادیا جاتا ہے، تمام میڈیا پر پابندی لگادی جاتی ہے، صرف تھیٹر کیا جارہا ہوتا ہے سیاست دانوں کو کچھ کام تو آتا نہیں ہے، کرنے کو تو سب فارغ ہوتے ہیں اور وہ تھیٹر کے لیے آڈیشن دینے پہنچ جاتے ہیں۔ تھیٹر کے اس ڈرامے کی کہانی پر کچھ خاص محنت نہیں کی گئی البتہ کرداروں کے درمیان ہونے والے طنزیہ جملے قابل تعریف ہیں، جیسے ایک جملہ ہے: لڑکا رہتا لندن میں اور کماتا پاکستان سے ہے۔ حنا ربانی کھر (فاطمہ گل )کے والد نواز شریف اور سوتیلی ماں کشمالہ طارق بنی ہیں۔ والدین حنا ربانی کھر کی شادی الطاف حسین سے کرانا چاہتے ہیں جب کہ حنا ربانی کھرکا قائم علی شا ہ سے افےئر دکھایا جاتاہے، جس سے عمران خان کو شدید جیلیسی ہوتی ہے۔ایک موقع پر نواز شریف الطاف حسین سے حنا ربانی کی شادی کرانا چاہتے ہیں، لیکن نکاح خواں نہیں مل رہا ہوتا تو الطاف حسین کہتا ہے کہ نکاح خواں نہیں تو کیا ہوا، سات پھیرے لے لو، اتنے میں عمران خان کہتا ہے میں عیسائی طریقے سے شادی کرادیتا ہوں، ایسے میں مولانا فضل الرحمن اپنی خدمات دینے کی پیشکش کرتے ہیں کہ میں نکاح پڑھا دیتا ہوں اور پھرمولانا فضل الرحمن ہمیشہ کی طرح موقع کا فائدہ اُٹھاتے ہیں اور نکاح پڑھاتے وقت دولہا کے بدلے اپنا نام لکھ لیتے ہیں۔ مولانا فضل الرحمن کا کردار ادا کرنے والے مصطفی چوہدری اور الطاف حسین کا کردار ادا کرنے والے ثاقب سمیر نے عمران خان کا کردار ادا کرنے والے داور محمود کی اس تھیٹر کے اسکرپٹ لکھنے میں بھی مدد کی ہے۔ قائم علی شاہ کا کردار بھی بہترین طریقے سے ادا کیاگیا ہے۔ قائم علی شاہ بار بار کہتا ہے کہ تم سب نے تو مرجانا ہے میں تو مراد علی شاہ کے مرنے کے بعد بھی دوبارہ وزیراعلی بن جاؤں گا۔
پاکستان میں تھیٹر کو وہ مقام حاصل نہیں، جو دنیا بھر میں حاصل ہے۔ پاکستان میں تھیٹر غیر مہذب غیر اخلاقی جملوں اور بے سروپا کہانیوں پر مبنی ڈراموں اور اس کے دوران پیش کیے جانے والے بے ہودہ رقص و موسیقی کے سبب تھیٹر جانا بھی معیوب سمجھا جاتا تھا، مگر اب کچھ برسوں سے تھیٹر نے پڑھے لکھے اور نوجوان طبقے کو اپنی جانب متوجہ کیا ہے اور لوگوں کا اب اپنے اہل خانہ کے ساتھ تھیٹر جانے کے رجحان میں اضافہ ہوا ہے اور اس کا سبب انور مقصود، داور محمود کی محنت شامل حال ہے جنہوں نے ملکی موضوعات سیاست کو مزاحیہ انداز میں تھیٹر کی زینت بنایا۔
KopyKats Productions کے کام یاب اسٹیج ڈراما آنگن ٹیڑھا، سیاچن، پونے چودہ اگست، سوا چودہ اگست کے بعد BNANISTAN ایک اچھی کاوش ہے، اگرچہ کہانی متاثر کن نہیں، لیکن ڈائیلاگ اور مزاحیہ جملے جان دار ہیں۔اس تھیٹر میں نہ صرف سیاست دکھائی گئی ہے بلکہ تھیٹر کی اندرونی سیاست کی عکاسی کو نمایاں کیا گیا ہے ۔پروڈیوسر، ڈائریکٹر اور فنانسر کے درمیان جاری چپقلش اور مشکلات کا بھی تذکرہ ہے۔ اس سے قبل انور مقصود کے گذشتہ تھیٹر پونے چودہ اگست، سوا چودہ اگست، آنگن ٹیڑھا اور دھرنا کی مقبو لیت کے بعد سیاچن نے بھی کافی شہرت حاصل کی۔ سیاچن کئی پہلووں کے اعتبار سے انفرادیت کا حامل رہا۔ سب سے پہلے اس کی کہانی بڑے افسروں کے بجائے عام سپاہیوں کی زندگی پر مبنی تھی، جو مادر وطن کی خاطر جان کی بازی لگانے کو برف پوش پہاڑوں پر اپنے پیاروں سے دور فرائض انجام دے رہے ہیں۔ انور مقصود کا کہنا تھا کہ ہمارے ہاں جو بھی فلمیں، ڈاکیو مینٹریز اور ٹیلیوژن نشریات ہیں، ان میں صرف فوجی افسران کا ذکر ہوتا ہے، مگرمیدان جنگ میں سپاہی سب سے آگے ہوتے ہیں اور فوجی افسران پیچھے اور میں نے یہ ڈراما اس لیے لکھا، کیوں کہ سپاہیوں سے میرا رشتہ بہت پرانا ہے۔ جب انور مقصود سے دریافت کیا گیا کہ سپاہیوں کی یہ کہانی لکھنے میں اتنے سال کیوں لگ گئے تو کہا اجازت نہیں تھی آئی ایس پی آر نے اب اجازت دی اور اب لکھ ڈالا۔ اس تھیٹر کے دوران حاظرین نے تمام مناظر محسوس کیے اور ان سے محظوظ بھی ہوئے اس میں قہقہے، خاموشی، جذبات، احساسات، جذبات اور آنسو، سبھی شامل تھے اور اگر ٹیکنیکل حوالے سے بات کی جائے تو وہ بھی لاجواب رہی، تھیٹر کے آغاز سے اختتام تک لائٹنگ اور ساونڈ ایفیکٹ نے ایسا ماحول بنایا گیا کہ گویا حاضر ین کو لگے وہ سیاچن کے گلیشئر ہی پر موجود ہیں اور پاکستانی فوج اور دشمن کی فوج کے درمیان صورت حال کو محسوس کرسکتے ہیں۔ سیاچن کا موسم کی مناسبت سے اس دوران تھیٹر کا درجہ حرارت بھی کم رکھا گیا تاکہ حاضرین سیاچن کے موسم کی سختی کو بھی محسوس کرسکیں کہ وہاں ہمارے فوجیوں کی دشمن کے ساتھ ساتھ موسم کے محاذ پر بھی نبرد آزما ہونا پڑتا ہے۔ اس تھیٹر میں فوج کے سپاہیوں کے کردار ادا کرنے والے افراد اور ٹیم کے باقی ممبرز کو آئی ایس پی آر کے تعاون سے 120 دن تک فوجی تربیت دی گئی تاکہ ان کی اداکاری میں حقیقی جھلک کی عکاسی ہوسکے، جس کے بعد پندرہ روز تک سیاچن میں ایک اگلو (برف کے گھر) میں رکھا گیا، جہاں وردیاں، اسلحہ اور فوجی تربیت دی گئی۔ سیاچن دنیا کا بلند ترین محاذ جنگ ہے، جہاں گذشتہ تیس برسوں میں اب تک پاکستان اور بھارت کے 8 ہزار سے زائد فوجی اپنی جان کی بازی ہار چکے ہیں اور ان 8000 میں سے صرف400 گولی یا اسلحہ سے جاں بحق ہوئے باقی ساڑھے سات ہزار شدید سرد موسم کی نذر ہوئے۔ایک اور قابل ذکر تھیٹر انور مقصود کا دھرنا تھا، جس میں سیاسی طنز ومزاح پر مبنی ملکی صورت حال کی عکاسی کی گئی تھی، جو عوام میں کافی مقبول رہا۔ اس میں عمران خان، مولانا فضل الرحمن، الطاف حسین، خواجہ سعد رفیق اور بلاول کے کردار قابل ذکر تھے۔ دھرنا کے بارے میں انور مقصود کا کہنا تھا کہ موجودہ ملکی صورت حال میں قلم ہی کے ذریعے ایوان بالا تک اپنی شکایات پہنچائی جاسکتی ہیں ورنہ مجھے تو یہ بھی لگتا ہے کہ ملک میں ابھی تک آمریت کا ہی دور ہے،جمہوریت کے بارے میں ہمارے سیاست دانوں کو شاید زیادہ معلومات ہی نہیں ،آمریت کے دور میں کم از کم ایک آدمی کی سننی پڑتی ہے، مگر جمہوریت میں ہر آدمی آمر ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ چودہ اگست کے حوالے سے لکھے گئے انور مقصود کے دو تھیٹر پونے چودہ اگست اور سوا چودہ اگست نے بھی کافی شہرت حاصل کی، جس کے بعد اب ساڑھے چودہ اگست بنانے کا بھی یہ ٹیم ارادہ رکھتی ہے۔
سوا چودہ اگست پاکستان کی سیاست اور ملک کی بنتی بگڑتی صورت حال کے تناظر میں لکھا گیا تھا۔ اس تھیٹر کے مرکزی کردار قائداعظم محمد علی جناح، ذوالفقار علی بھٹو اور جنرل ضیاالحق تھے، جو موجودہ دور میں پاکستان واپس آئے تاکہ دیکھ سکیں کہ آج کل ان کے بعد پاکستان میں کیا ہورہا ہے؟ اس کے ہدایات کار داور محمود تھے جو اس سے پہلے پونے چودہ اگست کے بھی ہدایت کار تھے۔ پونے چودہ اگست میں تحریک پاکستان اور بانیان پاکستان کی جدوجہد کو اجاگر کیا گیا تھا اور بہت خوب صورت انداز میں ماضی کو حال سے جوڑا گیا۔ پونے چودہ اگست میں قائداعظم محمد علی جناح، علامہ اقبال اور مولانا شوکت علی کو ایک ساتھ دکھایا گیا۔ اس میں کام کرنے والے اداکاروں کا کہنا تھا کہ پونے چودہ اگست نئی نسل کو ملکی مسائل سے آگاہی اور ان سے نمٹنے کے لیے مثبت کردار ادا کرے گا، جب کہ پونے چودہ اگست تحریر کرنے والے انور مقصود کا کہنا تھا کہ یہ ڈراما جوانوں کے لیے لکھا ہے، جو ملک کا مستقبل ہیں۔
تھیٹر جیسے اُردو میں ’’جلوہ گاہ‘‘ کہتے ہیں کی ابتدا حضرت عیسی سے بھی پرانی ہے، یونان میں محفوظ اپیے ڈرو کے کھنڈرات میں تھیٹر کے آثار دریافت کیے گئے، جو آج بھی موجود ہیں۔ جلوہ گاہ ایسی عمارت کو کہا جاتا ہے، جہاں تماشائی جمع ہوکر ڈراما یا ناٹک دیکھیں اور ہندوستان میں تو زمانہ قدیم سے ناٹک اور نو ٹنکیوں کی تاریخ موجود ہے اور اگر انگلستان کا تذکرہ کیا جائے تو لندن میں مستقل تھیٹر ملکہ برطانیہ کے دور میں بنا، اس سے قبل انگلستان میں کلیساؤں کو تھیٹر کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا، جس میں انجیل مقدس کی کہانیوں کو ڈرامے کی صورت میں لوگوں کو بتایا جاتا تھا اور اس زمانے میں ناٹک اور ڈرامے مذہب اور عبادت کی تبلیغ کے لیے استعمال کیے جاتے تھے۔ جلوہ گاہ میں کی جانے والی اداکاری کو جلوہ کاری کہا جاتا تھا، وقت کے ساتھ ساتھ اس میں تبدیلیاں بھی آتی گئیں، جب پہیّا ایجاد ہوا تو پہیّے والی گاڑیوں ہر ناٹک دکھائے جانے لگے اور کچھ لوگ اس پیشے سے وابستہ ہونے لگے، جو مختلف شہروں اور قصبوں اورمضافات میں جاکر اپنے فن کا مظاہرہ کرنے لگے اور لوگ ان سرایوں میں جاکر ناٹک دیکھنے لگے، جو دائرہ کی شکل میں ہوتی تھیں، پھر شیکسپیئر کے زمانے میں ان دائرہ نما تھیٹروں نے مربع کی شکل اختیار کرلی اور اس میں اسٹیج بھی بنائے جانے لگے، جو موجودہ دور کے تھیٹر کی شکل ہے۔ تھیٹر اپنی بات لوگوں تک پہنچانے کا ایک بہترین ذریعہ ہے۔ یہاں لوگ زیادہ توجہ سے بات سنتے ہیں کیوں کہ وہ اپنا وقت اور وسائل خرچ کرکے یہاں تک پہنچتے ہیں، اس دوران وہ کوئی دوسرا کام نہیں کرتے اور ان کی ساری توجہ صرف ایک ہی نکتے پر مرکوز ہوتی ہے، تھیٹر پر دیگر ذرائع ابلاغ کی طرح سنسر شپ یا قانونی گرفت بھی سخت نہیں ہوتی۔