مولانا فضل الرحمن قد وقامت کے اعتبار سے اتنے لحیم شحیم تو نہیں کہ دیکھنے والوں کی پگڑیاں گر پڑیں۔ لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ انہیں دیکھنے والے نظر اٹھانے سے قبل اپنی پگڑی سنبھالنا نہیں بھولتے۔ مولانا کے مخالفین ان کی طرز سیاست کے بارے میں جو چاہیں کہیں مگر ان کی انفرادیت سے انکار نہیں کرسکتے۔ مولانا فضل الرحمن نے دھرنا دیا تو سارے سیاسی مبصرین کہتے تھے کہ دھرنا دھرا کا دھرا رہ جائے گا اور مولانا کی سیاست بھی دھری رہ جائے گی۔ مگر ایسا کچھ نہیں ہوا ان کی سیاست نے تمام نامی گرامی سیاست دانوں کو سرنگوں کردیا۔ وہ عوام سے آنکھیں چرانے لگے مگر جہاں تک دھرنے کا تعلق ہے تو اس نے بڑے بڑوں کے حوصلوں کو زمیں بوس کردیا۔ چودھری برادران نے دھرنا ختم کرانے میں جو کردار اد ا کیا تھا اس کے بارے میں گزشتہ دنوں لب کشائی کی تھی مگر وہ دراصل لب ہلائی کی ایک معصومانہ خواہش تھی۔ ان کے فرمان کے مطابق وزیر اعظم عمران خان کو یہ باور کرایا گیا تھا کہ مولاناکے دھرنے میں دھاوا بولنے کی تیاری کرلی گئی ہے۔ اگر ایسا ہوا تو حکومت بھی زیر عتاب آ سکتی ہے اور یوں ایک معاہدہ کے تحت مولانا کا دھرنا ختم کرایا گیا۔ شیخ رشید اکثر کہا کرتے ہیں کہ وہ خسارے کا سودا نہیں کرتے کیونکہ وہ شیخ ہیں۔ مگر وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ انسان ہونے کی حیثیت سے خسارے ہی کا سودا کرتے ہیں مگر مولانا جید عالم ہونے کے ناتے ایک سوراخ سے دوسری بار نہیں ڈسے جاتے مگر وہ بھی انسان ہیں۔ اور انسان کی فطرت یہی ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ منافع کمانا چاہتا ہے۔ مولانا فضل الرحمن کو بھی چودھری برادران نے زیادہ منافع کی جھلک دکھائی تھی اس معاملے میں مولانا تذبذب کا شکار تو لازمی ہوئے ہوں گے۔ مگر معاہدہ کرنے والا سیاست کی دنیا کا نیک نام شخص تھا معزز اور محترم بھی تھا سبھی اس کا احترام کیا کرتے تھے۔ سو اس کی حیثیت کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا تھا۔ شنید ہے کہ مولانا فضل الرحمن کو کچھ عرصے کے بعد صدر مملکت بنانے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ یہ بات قابل قبول ہے کہ مولانا صدر مملکت بننے پر رضا مند ہوگئے ہوں کیونکہ انہوں نے وزیر اعظم بننے کے لیے کسی زمانے میں بڑے پاپڑ بیلے تھے۔ مگر عالمی منڈی میں ان کی پاپڑ پسند نہیں کیے گئے اور جہاں تک دھرنے پر دھاوا بولنے کا تعلق ہے تو مولانا دھاوں سے بھی نہیں ڈرتے۔ تو دھاوا بولنے والوں سے کیسے ڈرجاتے۔ کیونکہ ان پر دھاوا بولنے والا بولنے کے قابل ہی نہیں رہتا تمام سیاسی مبصرین اس بات پر مقفق ہیں کہ متفقہ حزب اختلاف وجود میں نہیں آ سکتی۔ کیونکہ ہر ایک کے ہاتھوں میں اپنی اپنی ڈفلی ہے۔ یوں بھی مسلم لیگ نواز، اور پیپلز پارٹی آصف زرداری کی پارٹیاں اس حقیقت سے آگاہ ہیں کہ جن قوتوں نے انہیں پانچ سال کی مدت پوری کرنے دی تھی۔ وہ قوتیں تحریک انصاف کو بھی پانچ سال پورے کرنے دیں گی۔ البتہ اس امکان کو مسترد نہیں کیا جاسکتا کہ عمران خان کو یوسف رضا گیلانی بنایا جاسکتا ہے۔
دونوں بڑی پارٹیوںکے بارے میں جو اندازے لگائے جارہے ہیں وہ سراسر غلط ہیں مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی ہر قیمت پر اپنی ساکھ برقرار رکھنا چاہتی ہیں وہ کسی بھی صورت میں مولانا فضل الرحمن کو وزیر اعظم بنانے پر رضا مند نہیں ہوں گی۔ کیونکہ یہ سیاسی خود کشی کی بد ترین صورت ہوگی۔ البتہ صدر پاکستان بنانے پر غور کیا جاسکتا ہے بالآخر مولانا کو وزیر داخلہ بنانے پر رضا مند کیا جاسکتا ہے مگر حکومت گرانے کی کسی کو جلدی نہیں وزیراعظم عمران خان کی ایسی حکومت دلدل بن چکی ہے جس میں گرنا تو کجا قریب جانا بھی پسند نہیں کیا جاسکتا۔