کشمیر پر پس پردہ مذاکرات کی داستان

590

 آج کل کشمیر کے مسئلے کے حل کے لیے نت نئے طریقے تجویز کیے جارہے ہیں۔ دو منٹ کی خاموشی سے لے کر مقبوضہ کشمیر کو پاکستان کے نقشے میں شامل کرنے تک۔ پاکستان کے عوام کو غالباً اس کا علم نہیں کہ ہندوستان اور پاکستان کی حکومتوں نے آزادی کے فوراً بعد پس پردہ مذاکرات کا سلسلہ شروع کردیا تھا۔ اس کا انکشاف امریکا اور برطانیہ کی حکومتوں کی خفیہ دستاویزات اور جواہر لال نہرو اور سردار پٹیل کے کاغذات اور مراسلوں سے ہوا ہے۔ برصغیر کی عصری تاریخ کے مبصروں کی رائے میں دونوں ملکوں نے اپنی آزادی کے سفر کے آغازہی پر پُرامن مستقبل کا زریں موقع ہاتھ سے گنوا دیا تھا جب یکم نومبر 1947 کو لاہور میں ایک ملاقات میں ہندوستان کے گورنر جنرل لارڈ ماونٹ بیٹن نے بانی پاکستان محمد علی جناح کو تحریری طور پر کشمیر، حیدرآباد اور جونا گڑھ میں استصواب رائے کی پیش کش کی تھی۔ قائد اعظم نے فی الفور یہ پیش کش ٹھکرادی تھی۔ لارڈ ماونٹ بیٹن نے یہ پیش کش نہرو کے ایما پر کی تھی جس کی تفصیلات واضح نہیں تھیں۔ یہی پیش کش نہرو نے پاکستان کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان کے ساتھ دلی میں ایک ملاقات کے دوران دہرائی تھی۔ اس بات کا انکشاف 71 میں سردار پٹیل کے شائع ہونے والے نجی کاغذات سے ہوتا ہے۔ پھر بیس روز بعد اٹھائیس نومبر کو دلی میں ایک اجلاس میں جس میں لارڈ ماونٹ بیٹن، سردار پٹیل، لیاقت علی خان اور غلام محمد شامل تھے، نہرو نے استصواب رائے کے لیے کشمیر کو چار واضح علاقوں میں تقسیم کرنے کی تجویز پیش کی تھی، وادی کشمیر، پونچھ بشمول میر پور، جموں اور گلگت ایجنسی۔ اکیس دسمبر سن سینتالیس کے اجلاس کی روداد کے مطابق نہرو نے لیاقت علی خان کو یقین دلایا کہ ہندوستان اقوام متحدہ کے تحت منصفانہ اور غیر جانبدارانہ استصواب رائے کے انعقاد کی پالیسی ہر گز ترک نہیں کرے گا۔ اس دوران قائد اعظم نے ہدایت جاری کی کہ کشمیر کے بارے میں تصفیے کی شرائط کے سلسلے میں ان کی منظوری کے بغیر کوئی پیمان نہ کیا جائے۔ لیاقت علی اور پاکستان کی کابینہ نے اس ہدایت کی پاس داری کی۔
غالباً اس کا ذکر ذوالفقار علی بھٹو نے ستائیس نومبر 72 کو لنڈی کوتل کے ایک جرگہ میں کیا تھا اور کہا تھا کہ سردار پٹیل نے حیدر آباد اور جونا گڑھ کے عوض کشمیر پاکستان کو دینے کی پیش کش کی تھی لیکن پاکستان نے اسے قبول نہیں کیا اور بقول بھٹو کے نتیجہ یہ کہ نہ صرف یہ تینوں ریاستیں پاکستان کے ہاتھ سے نکل گئیں۔
برطانوی خفیہ دستاویزات کے مطابق 1949 میںدلی میں برطانیہ کے ہائی کمشنر آرچی بالڈ نے نہرو سے ملاقات کی تھی جس میں کشمیر کے مسئلے پر گفتگو ہوئی تھی۔ اس گفتگو میں نہرو نے کہا تھا کہ وہ اس بنیاد پر کشمیر کا مسئلہ حل کرنا چاہیں گے کہ مغربی کشمیر پاکستان کے حوالے کر دیا جائے اور جموں اور لداخ ہندوستان کے۔ اور صرف وادی میں استصواب رائے کرایا جائے۔ برطانوی ہائی کمشنر نے اس کی اطلاع اپنی حکومت کو ایک مراسلے میں دی تھی۔
مئی 52 میں ہندوستان میں امریکا کے سفیر چسٹر بولز نے واشنگٹن کو مطلع کیا تھا کہ ہندوستان کشمیر کی تقسیم کی تجویز پر غور کرنے کے لیے تیار ہے بشرطیکہ پاکستان اس پر راضی ہو۔ اگست 53 کو دلی میں پاکستان کے وزیر اعظم محمد علی بوگرا اور نہرو کی ملاقات میں یہ طے ہوا تھا کہ استصواب راے کا ناظم اپریل سن چون میں مقرر کر دیا جائے اور دس اگست 53 سے اکیس ستمبر 54 تک دونوں ملکوں کے درمیان اس مسئلے پر ستائیس مراسلوں کا تبادلہ ہوا اور جب امریکا کی طرف سے پاکستان کو فوجی امداد کا اعلان ہوا تو نہرو استصواب کے وعدہ سے یکسر منحرف ہوگئے اور محمد علی بوگرا بھی مایوس ہوگئے۔
نہرو میموریل فنڈ نے نہرو کی دستاویزات کی جو اٹھائیسویںجلد شائع کی ہے اس سے یہ انکشاف ہوتا ہے کہ پاکستان کو امریکی فوجی امداد کا تو محض ایک جواز تھا دراصل نہرو نے 48 ہی میں استصواب رائے کا خیال ترک کر دیا تھا اور وہ جنگ بندی لائین کی بنیاد پر چند ردوبدل کے ساتھ کشمیر کی تقسیم کے حق میں تھے۔
یہ بات جنوری 55 کی ہے جب پاکستان کے گورنر جنرل غلام محمد دلی گئے اور ہوائی اڈہ پر نہرو کو ایک لفافہ دیا جس میں ایک چھوٹا کاغذ تھا جس پر کشمیر کے مسئلے کے تصفیہ کے لیے چار نکاتی فارمولا تجویز کیا گیا تھا۔ پہلا نکتہ یہ تھا کہ پونچھ ، ریسی اور ادھم پور سمیت جموں کا ایک بڑا حصہ پاکستان کو منتقل کردیا جائے، دوسرا نکتہ یہ تھا کہ اسکردو ہندوستان کے حوالہ کردیا جائے، تیسرا نکتہ یہ تھا کہ کارگل وادی کشمیر میں شامل کرکے اس علاقہ کو مستقبل کے فیصلے تک ہندوستان اور پاکستان کے سیاسی اور فوجی مشترکہ کنٹرول میں دے دید جائے اور چوتھا نکتہ یہ تھا کہ اگلے پانچ اور بیس برس کے دوران وادی کشمیر میں استصواب رائے کرایا جائے۔ نہرو نے غلام محمد کا یہ فارمولا مسترد کردیا۔
البتہ چودہ مئی 55 کو جب دلی میں پاکستان کے وزیر اعظم بوگرا اور وزیر داخلہ اسکند مرزا کی نہرو سے ملاقات ہوئی تو باقاعدہ نقشے سامنے رکھ کر اور مسلم اور ہندو اکثریت والے علاقوں کی مختلف رنگوں میں نشان دہی کی گئی تھی۔ نہرو البتہ فرقہ وارانہ بنیاد پر کشمیر کی تقسیم کے خلاف تھا تاہم وہ جنگ بندی لائن کی بنیاد پر جموں کشمیر کی تقسیم کے حق میں تھے۔ نہرو نے زور دیا تھا کہ اسی ملاقات میں قطعی سمجھوتا ہو جائے جس پر اسکندر مرزا نے کہا کہ اگر اس بنیاد پر کشمیر کا سمجھوتا طے ہوا تو پاکستان میں کوئی حکومت چوبیس گھنٹے تک نہیں رہ سکتی۔
63 اور 64 میں بھٹو اور سورن سنگھ کے درمیان کشمیر کے مسئلے کے حل کے لیے جو طویل مذاکرات ہوئے تھے ان میں بھی کشمیر کی تقسیم کی تجاویز پر غور کیا گیا تھا۔ ان مذاکرات میں استصواب رائے کے بارے میں کوئی بات نہیں ہوئی تھی۔
64 میں اپنے انتقال سے محض ایک ماہ قبل نہرو نے لوک سبھا میں اعلان کیا تھا کہ وہ شیخ عبداللہ کو پاکستان بھیج رہے ہیں۔ اس وقت نہرو نے ایک اہم بات یہ کہی تھی کہ وہ کشمیر کے لیے آئینی انتظامات چاہتے ہیں۔ یہ واضح نہیں کہ نہرو کے ذہن میں آئینی انتظامات کی کیا نوعیت تھی۔ جس وقت نہرو کا انتقال ہوا اس وقت شیخ عبداللہ اسلام آباد میں ایوب خان سے بات چیت کر رہے تھے، کہا جاتا ہے اس بات چیت میں ہندوستان اور پاکستان کی کنفیڈریشن کی تجویز زیر غور تھی جو شیخ عبداللہ نے نہرو کے ایما پر راج گوپال اچاریہ کے مشورہ پر مرتب کی تھی۔ اس کے تحت کشمیر کو پاکستان اور ہندوستان کے مشترکہ کنٹرول میں دینے کی تجویز تھی جس کے دفاعی اور خارجہ امور دونوں ملکوں کی مشترکہ ذمے داری ہوتے اور کنٹرول لائن دونوں ملکوں کے باقاعدہ سرحد تسلیم کی جاتی۔ عملی معنوں میں ایک مکمل کنفیڈریشن تشکیل کی جاتی لیکن صدر ایوب ٹھٹھک گئے اور انہوں نے کنفیڈریشن کی تجویز مسترد کردی۔
اس بات کا بھی حال میں انکشاف ہوا ہے کہ 65 میں جنگ سے صرف تین ماہ قبل وزیر اعظم لال بہادر شاستری نے اپنا ایک ایلچی صدر ایوب کے پاس خفیہ طور پر بھیجا تھا اور کنٹرول لائن کی بنیاد پر ردو بدل کے ساتھ کشمیر کا مسئلہ حل کرنے کی تجویز پیش کی تھی۔ لیکن اس کا کوئی نتیجہ نہ نکلا۔