خاموشی مگر اُداس بھارتی مسلمان

296

بھارت میں ایک رکن اسمبلی کے بھتیجے کی طرف سے فیس بک پر گستاخانہ پوسٹ لگانے سے مسلمانوں کے جذبات کا پیمانہ چھلک پڑ اور آئی ٹی مراکز کے لیے عالمی سطح پر مشہور بنگلور شہر میں مسلمانوں کے احتجاج کو دبانے کی کوشش میں اب تک تین افراد جاں بحق درجنوں زخمی ہو چکے ہیں جبکہ ایک سو افراد کو انتظامیہ نے ہنگامہ آرائی کے الزام میں گرفتار کر لیا ہے۔ مسلمانوں میں اشتعال کا آغاز کانگریسی رکن اسمبلی سری ویناس مرتھی کے بھتیجے کی فیس بک پر گستاخانہ پوسٹ اپ لوڈ کرنے سے ہوا۔ جس پر مقامی مسلمانوں نے انتظامیہ سے متعلقہ شخص کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا۔ انتظامیہ کی طرف سے لیت ولعل سے کام لینے پر مسلمان اس شخص کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کرتے ہوئے باہر نکل آئے اور یوں احتجاج پھوٹ پڑا۔ جس کو کچلنے کے لیے پولیس نے فائرنگ کی۔ اس واقعے کی گونج بھارت سے باہر بھی سنی گئی اور پاکستان سمیت کئی ملکوں نے اس رویے کی شدید مذمت کی۔ پاکستان نے اسے بھارت میں پھیلائے جانے والے اسلاموفوبیا کا نتیجہ قرار دیا۔
یوں تو بھارت میں مسلمانوں نے کبھی سکھ کا سانس نہیں لیا مگر بھارتیا جنتا پارٹی کے اُ بھار اور بالخصوص مودی کے سیاست میں سرگرم ہونے اور حکومتی عہدوں پر پہنچنے کے بعد مسلمانوں پر عرصہ حیات منظم انداز سے تنگ ہونے لگا۔ مسلمانوں کو دیوار سے لگانے، تعصب کا نشانہ بنانے اور تشدد اور جبر سے دبانے کا جو عمل پہلے مستور انداز میں جاری تھا مودی کے بعدوہ پوری طرح عیاں ہو کر سامنے آیا ہے۔ مسلمانوں کو دبانے اور کچلنے کے لیے قوانین کا سہارا بھی لیا جانے لگا جس کا واضح ثبوت شہریت کے جدید قوانین ہیں۔ مسلمانوں نے ان قوانین کے خلاف شدید احتجاج کیا مگر مودی حکومت نے مسلمانوں کے احتجاج کا پرکاہ برابر اہمیت دی نہ مطالبات پر ہمدردانہ غور کیا۔ دہلی سمیت کئی مقامات پر احتجاج کرنے والے مسلمانوں کو بدترین تشدد کا نشانہ بنایا۔ بابری مسجد کی شہادت سے مسلمانوں کو دیوار سے لگانے کا جو عمل شروع ہوا تھا پانچ اگست کو بابری مسجد کی جگہ رام مندر کے افتتاح اور مودی کی پوجا پاٹ سے وہ عمل پورے عروج پر پہنچا۔ مودی نے اس موقع کو ہندو تہذیب کے طویل سفر کی کامیابی قرار دیا اور کہا کہ اس دن کے لیے بھارت نے پانچ سو سال انتظار کیا تھا۔ گویاکہ مودی مغل دور کو متعصبانہ کہہ تنقید کا نشانہ بنا رہے تھے۔
مغل حکمرانوں کا اقتدار ہندو راجائوں کے سر پر قائم تھا جو اپنا مذہب تبدیل کیے بغیر مغل حکمرانوں کے ساتھ تعاون کر رہے تھے۔ اگر مسلمان حکمران اس قدر ظالم تھے کہ وہ ہندو تہذیب کے نشان اور آثار مٹا کر اسے اسلامی رنگ دے رہے تھے تو ہندو راجے مہاراجے ان کی مددکیوں کر رہے تھے؟ مودی کی پانچ سو سالہ انتظار کی بات کے بعد بھارت کے مسلمان دانشوروں نے یہی سوال اُٹھایا ہے۔ رام مندر کے افتتاح کے لیے پانچ اگست کی تاریخ کا تعین بھی اپنے اندر بدترین تعصب اور تنگ نظر پر مبنی پیغام لیے ہوئے تھا۔ پانچ اگست کو کشمیر کی خصوصی شناخت کو ختم کرنے کے فیصلے کا ایک سال مکمل ہو رہا تھا۔ پاکستان اور کشمیری دنیا بھر میں اس واقعے کے خلاف احتجاج کر رہے تھے۔ بھارت کے اس اقدام کو عمومی طور پر مسلم اکثریتی ریاست کے تشخص اور آبادی کے تناسب کی تبدیلی کی راہ پر پہلا قدم سمجھا گیا۔ بھارت نے اس تاثر کی تردید میں زیادہ دلچسپی نہیں لی کیونکہ مخصوص قوانین کے خاتمے کے بعد کسی تردید کی گنجائش باقی نہیں تھی۔ ان قوانین کا خاتمہ بھارت کے عزائم اور منصوبوں کی چغلی کھا رہا تھا۔ اس طرح پانچ اگست کو کشمیر ی مسلمانوں کی دُکھتی رگ پر بھارت نے ایک ہاتھ رکھا تھا تو ٹھیک ایک سال بعد بھارتی مسلمانوں کی دکھتی رگ پر دوسرا ہاتھ رکھ دیا اور یہ حقیقت واضح کردی کہ بھارتی حکمران اس سارے قصے کو ہندو مسلمان تہذیبی اور تاریخی کشمکش کے تناظر میں دیکھ رہے ہیں۔ پاکستان لاکھ پرانے مندروں کی صفائی اور مرمت کرے نئے مندروں کی تعمیر کے لیے زمینیں اور دوسری سہولتیں دے مگر بھارت نے جس راہ پر سفر شروع کیا ہے وہ اس سے ہٹنے والا نہیں۔
مودی اور امیت شاہ جب نئے بھارت کی بات کرتے ہیں تو اس سے ان کی مراد سیکولر جمہوریہ نہیں ہندو راشٹریہ ہوتی ہے۔ مودی کے اس رویے کو ’’کلچرل نیشنل ازم‘‘ کا نام دیا جا رہا ہے۔ ثقافتی قوم پرستی جس میں ہند و ثقافت کو طاقت کے زور پر حاوی اور بالادست کیا جانا مقصد ہے۔ بھارت کے متعصب لوگ یہ بات بھول جاتے ہیں کہ ہندو ثقافت ایک جزیرے میں مقید ہے۔ اس کے دائیں بائیں مسلمان ثقافت گھیرا ڈالے موجود ہے۔ ایک طرف پاکستان، افغانستان، وسط ایشیا ہے تو دوسری طرف چین اویغور مسلمان اور کنفیوشس تہذیب، جنوب کی سمت بنگلا دیش اور اسے آگے انڈونیشیا اور ملائیشیا سمندروں سے پار جائیں تو عرب اور ایران سے واسطہ پڑتا ہے۔ مسلم تہذیب کے اس سمندر میں ہندو تہذیب جزیرے کی مانند ہے اور اس پر مستزاد یہ کہ مودی بھارتی مسلمانوں کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرکے اس کو مزید محدود اور تنہا کرتا جا رہا ہے۔ مودی اس تہذیب کو طاقت کے ذریعے وسعت دینا چاہتا ہے اور یہ تصادم کا راستہ ہے۔ جب آپ اپنی ثقافت اور تہذیب اور نظریے کو طاقت کے بل پر دوسروں پر ٹھونسنے کی کوشش کرتے ہیں تو پھر ردعمل آتا ہے۔ بابری مسجد کی جگہ رام مندر کے افتتاح کے بعد بھارت کے دی ہندو اخبار کے ایک مضمون کی سرخی تھی کہ ’’بھارت کا مسلمان خاموش مگر اُداس ہے‘‘۔ بنگلور کے واقعات بتاتے ہیں کہ مودی بھارتی مسلمانوں کو خاموش نہیں رہنے دے گا اور انہیں خاموشی توڑنے پر مجبور کرے گا تاکہ ان کے ردعمل کی طاقت کا ٹھیک انداز ہ کرکے اس کچلنے کے لیے درکار اور مطلوبہ طاقت اور تدبیر اختیار کرے۔