پاکستانی برآمدات میں اضافے کے وسیع مواقع

343

اس حقیقت سے تمام پاکستانی واقف ہیں کہ ہمارا ملک جغرافیائی، زرعی، انسان اور قدرتی وسائل سے مالا مال ہے۔ زرخیز زمین، پورٹ قاسم، کراچی پورٹ اور گوادر جیسی بندرگاہیں، 990 کلو میٹر طویل ساحل، اہم زرعی پیداوار میں 10 بڑے ممالک میں شمولیت، تیل، گیس، تانبے، نمک اور دوسری معدنیات کے وسیع ذخائر، 22 کروڑ کی آبادی جس میں 52 فی صد نوجوان، اہم جغرافیائی اسٹرٹیجک پوزیشن، سرسبز و شاداب اور حسین مناظر سے بھرپور شمالی علاقہ جات اور بلند ترین پہاڑی سلسلے ملک کے استحکام و ترقی اور عوام کی خوشحالی کا معیشت کی مضبوطی سے گہرا تعلق ہے۔ دنیا میں چاہے ترقی یافتہ ممالک ہوں یا ترقی پزیر، معیشت کی ترقی اور بہتری میں برآمدات کا اہم کردار ہے۔ جیسے جیسے برآمدات بڑھتی ہیں نئے نئے روزگار کے مواقعے پیدا ہوتے ہیں۔ لوگوں کی آمدنیوں میں اضافہ ہوتا ہے جس سے مجموعی طور پر ملک خوشحال ہوتا ہے اور معیشت ترقی کرتی ہے۔ کئی صدیوں سے ماہرین معیشت برآمدات کی اہمیت، ان کے پھیلائو، تنوع، میکنزم اور وسعت پر اپنے اپنے نظریات پیش کرتے آئے ہیں۔ دنیا کے بیش تر ممالک نے ان نظریات کو سامنے رکھ کر اپنی برآمدی پالیسیاں تشکیل دیں اور ان پر عملدرآمد کرکے اپنی برآمدات کو کہیں سے کہیں پہنچادیا۔ مثلاً بنگلادیش 40 ارب ڈالر، ملائیشیا 280 ارب ڈالر، ویت نام 240 ارب ڈالر، تھائی لینڈ 250 ارب ڈالر اور سنگاپور 411 ارب ڈالر، انڈیا کا نام اس لیے نہیں لیا کہ وہ آبادی اور رقبے کے لحاظ سے بڑا ملک ہے۔ جن ممالک کا ریکارڈ پیش کیا گیا وہ پاکستان سے چھوٹے ہیں اور تو اور بنگلادیش بھی ہم سے آگے ہے جب کہ پاکستان کی برآمدات کا حجم 21 ارب ڈالر ہے تین سال پہلے 21 ارب ڈالر تک پہنچ گئی تھیں لیکن اس کے بعد بجائے بڑھنے کے ان میں کمی آرہی ہے۔
رواں مالی سال 2020-21ء کے پہلے ماہ جولائی میں حکومت کی جانب سے کچھ رعایتیں دینے کے بعد 2 ارب ڈالر کی مصنوعات برآمد کی گئی ہیں جو پچھلے سال کے ماہ جولائی کے مقابلے میں 5.7 فی صد زیادہ ہیں اس پر سرکاری سطح پر شادیانے بجائے جارہے ہیں۔ وزارت خزانہ، تجارت اور منصوبہ بندی کو وسیع البنیاد اور طویل مدتی (Long Term) منصوبہ بندی کی ضرورت ہے مالی سال شروع ہوئے ڈیڑھ ماہ گزر چکا ہے لیکن پالیسی فریم ورک پر کام جاری ہے۔ پاکستان کا برآمدی سیکٹر صرف پانچ قسم کی مصنوعات تک محدود ہے جن میں کاٹن کی مصنوعات، ریڈی میڈ گارمنٹس، چاول، چمڑے کی مصنوعات اور کھیلوں کا سامان شامل ہے۔ انہی شعبوں کو سرکاری سرپرستی اور رعایتیں حاصل ہوتی ہیں جب کہ یہ بات عرصے سے کہی جارہی ہے کہ برآمدات میں اضافے اور استحکام کے لیے اس شعبے کو مزید وسعت (diversification) کی ضرورت ہے۔ مثلاً ادویات، فوڈ پروسسنگ، بجلی کے آلات اور انجینئرنگ کی اشیا میں اضافے کی بہت گنجائش ہے اسی طرح کمپیوٹر سوفٹ ویئر کا شعبہ بھی حکومت کی توجہ کا مستحق ہے۔
بلاشبہ حکومت نے مختلف خام مال کی درآمدی ڈیوٹی میں کمی کی ہے اور مخصوص مصنوعات کی تیاری میں بجلی کے نرخوں میں کمی کی ہے۔ لیکن اس سلسلے میں مزید اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ حال ہی میں ورلڈ بینک کے تعاون سے غیر مرئی تجارتی مشکلات، پاکستان 2020ء کے عنوان سے ایک رپورٹ شائع ہوئی ہے جس میں اُن رکاوٹوں اور مشکلات کا ذکر ہے جو پاکستانی برآمد کنندگان کو برداشت کرنا پڑتی ہیں۔ یہ رپورٹ 1152 برآمد کنندگان اور درآمد کنندگان سے سروے کرکے تیار کی گئی ہیں۔ اس کے مطابق بڑے مسائل میں برآمدی اشیا کا معائنہ، ٹیکس ریفنڈ، سرٹیفکیٹ کا اجرا اور دوسری سرکاری کارروائیاں شامل ہیں جن کے باعث برآمد کرنے میں تاخیر اور رکاوٹ ہوتی ہے۔ یہ ایک اہم رپورٹ ہے وزارت تجارت کو اس پر توجہ کرنا چاہیے اور جن مشکلات اور رکاوٹوں کا اس میں ذکر ہے ان کے خاتمے کے لیے ٹھوس اقدامات اٹھانا چاہییں۔