دفتر خارجہ اور وزیراعظم میں کیا اختلاف ہے؟

409

حکومت اور اپوزیشن کی لڑائی میں اچانک عمران خان اور ان کے دفتر خارجہ کے درمیان فاصلے بڑھ گئے۔ معاملہ یہ تایا جا رہا ہے کہ دفتر خارجہ نے گڑبڑ کی ہے۔ ہوا یہ تھا کہ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے بھارت کے خلاف او آئی سی کا ساتھ نہ دینے پر سعودی عرب کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔ انہوں نے کہا تھا کہ میں ایک بار پھر او آئی س کا وزرائے خارجہ اجلاس بلانے کی درخواست کر رہا ہوں اگر آپ اس کا انعقاد نہیں کرتے ہیں تو میں وزیراعظم عمران خان سے یہ مطالبہ کرنے پر مجبور ہوں گا کہ وہ ان اسلامی ممالک کا اجلاس طلب کریں جو مسئلہ کشمیر پر ہمارے ساتھ ہیں۔ اور مظلوم کشمیریوں کی حمایت کرتے ہیں۔ اس بیان کی بنیاد پر وزیر خارجہ کو عمران خان سے الگ بیانیہ پیش کرنے کا ملزم بنا دیا گیا حالانکہ اگر دیکھا جائے تو وزیر خارجہ نے کوئی ایسا بیان نہیں دیا تھا جس پر وفاقی وزیر انسانی حقوق شیریں مزاری کو بیان دینا پڑے۔ اگر دفتر خارجہ اپنا کام نہیں کر رہا تھا تو اس پر وزیراعظم کو نوٹس لینا چاہیے تھا۔ وزیر انسانی حقوق کا کیا کام کہ اس پر دفتر خارجہ کے بارے میں وہ بیان بازی کریں۔ بولے تو ریلوے کے وزیر شیخ رشید بھی ہیں۔ کشمیر پاکستانی قوم کا مسئلہ ہے اور اگر اقوام متحدہ، او آئی سی اور دیگر عالمی تنظیمیں پاکستان کا ساتھ نہ دیں تو پاکستان کو کیا کرنا چاہیے۔ وزیراعظم عمران خان بھی اپنے ماضی کے بیانات اٹھا کر دیکھیں وہ بھی او آئی سی پر عدم اعتماد کا اظہار کر چکے ہیں۔ پاکستانی قوم کو جہاں سے حمایت ملے گی وہ کشمیر کے لیے اسی طرف دیکھے گی اگر سعودی عرب کشمیر کے مسئلے پر او آئی سی کا اجلاس بلانے میں تامل کر رہا ہے یا ٹال مٹول میں مصروف ہے تو پاکستان کو کیا کرنا چاہیے۔ یہ بات تو واضح ہے کہ سعودی عرب بھارت کے 5 اگست کے اقدام کو بھارت کا اندرونی معاملہ قرار دے چکا ہے۔ وزیر انسانی حقوق بتا سکتی ہیں کہ ایسی صورت میں پاکستان کو پھر بھی او آئی سی کا انتظار کرنا چاہیے؟ یہ تو حقیقت ہے کہ او آئی سی کا انتظار کرتے کرتے پاکستان اس نہج پر پہنچ چکا ہے کہ اسے او آئی سی کے باہر بھی دیکھنا پڑے ۔ عالمی سطح پر بہت سی چیزیں تبدیل ہو رہی ہیں اور او آئی سی کے مقابلے میں نئی تنظیم کے قیام کی باتیں بھی ہو رہی ہیں۔ وزیر انسانی حقوق دفتر خارجہ پر تنقید کرتے ہوئے جو باتیں کہ گئیں جو خرابیاں دفتر خارجہ میں بیان کی گئی ہیں وہ تمام ہی ارکان اسمبلی میں پائی جاتی ہیں۔ آرام، تھری پیس سوٹ، کلف لگے کپڑے پہننے اور ٹیلی فون کرنے کے سوا کچھ کرنے کو تیار ہی نہیں ہیں۔ وزیر موصوفہ فرماتی ہیں کہ عمران خان نے تن تنہا کشمیر کا بیانیہ تبدیل کرکے دکھا دیا۔ اس میں تو کوئی شک نہیں ہے۔ 70 برس سے قوم کو سبق سکھایا جا رہا تھا کہ کشمیر بزور شمشیر حاصل کیا جا سکتا ہے۔ کشمیر کے لیے جہاد کیا جانا چاہیے، کشمیر کے بغیر پاکستان نامکمل ہے۔ لیکن اب کشمیر پر عمران خان کا بیانیہ ایک ترانے کی صورت میں سامنے آیا ہے۔ بھارت نے 5 اگست کا اقدام کیا۔ یہاں سے ترانہ مار دیا گیا۔ نصف گھنٹہ سڑکوں پر کھڑے رہے۔ بھارت نے مزید اقدامات کیے بابری مسجد کی جگہ رام مندر بنانا شروع کر دیا۔ یہاں سے ایک اور ترانہ مار دیا گیا۔ اب کشمیر پا پاکستان کا بیانیہ ترانے ہیں یا ایک منٹ خاموشی۔ بھارت کا بیانیہ ساڑھے دس لاکھ فوج ہے۔ ایک سالہ لاک ڈائون ہے ۔ پاکستان کا بیانیہ کاغذ پر نقشہ ہے۔ یہ سب عمران خان کی مرضی سے ہو رہا تھا اور دفتر خارجہ کر رہا تھا پھر اچانک کیا ہوگیا کہ شاہ محمود کے ایک ٹی وی پروگرام میں بیان سے سعودی عرب ناراض بھی ہو گیا اور پاکستان سے اس کے تعلقات بھی خراب ہو گئے۔ محترمہ شیریں مزاری نے پاکستانی سفارتکاروں کے بارے میں جو کچھ کہا ہے وہ تقریباً درست ہی ہے لیکن ذرا وہ یہ بتائیں کہ پوری قومی اسمبلی میں کس قسم کے لوگ بیٹھے ہیں۔ کیا یہ لوگ آرام کرنے، تھری پیس سوٹ اور کلف والے کپڑوں کے شوقین نہیں ہیں۔ کشمیر ہو یا بھارتی جارحیت اور کنٹرول لائن کی خلاف ورزی وزیراعظم عمران خان نے بھی صرف ٹیلی فون ہی تو کیے تھے۔ ان کا یہ کہنا بجا ہے کہ کشمیر پر سفارتکاری میں تبدیلی لانے کی ضرورت ہے۔ یہ بات بار بار کہی جا رہی ہے کہ ملک کی تمام سیاسی جماعتوں بشمول اپوزیشن سب کو ملا کر ایک کشمیر کمیٹی بنائی جائے جس کی قیادت ایسی شخصیت کو دی جائے جو بالاتفاق کشمیر کاز کے لیے سب سے زیادہ کام کرنے والی ہو۔ یہ کمیٹی ساری دنیا میں وفود بھیجے اور بھارت کے اقدامات کو سامنے لائے۔ کشمیر کا مقدمہ بھی صحیح طریقے سے دنیا کے سامنے پیش کرنے کی ضرورت ہے۔ دنیا کو یہی نہیں معلوم کہ کشمیر کس کا ہے۔ بیشتر ممالک کی معلومات یہی ہیں کہ کشمیر بھارت کا حصہ ہے اور وہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے جن پر بھارت ظلم کرتا ہے۔ بھارتی ظلم کے خلاف کبھی کبھی آواز اٹھا دیتے ہیں لیکن دوست اسلامی ممالک کے سامنے بھی کشمیر کا مقدمہ درست طریقے سے نہیں پیش کیا گیا۔ یہ کام دفتر خارجہ کا ہے۔ سفارتکاروں کا ہے لیکن پاکستانی سفارتکار احمد کمال تو اس کا شکوہ کر چکے ہیں کہ جب ہم اقوام متحدہ میں بھارت کے کشمیر میں مظالم پر زیادہ بات کرتے تو ہمیں اسلام آباد ہی سے روک دیا جاتا کہ بس اس سے آگے نہ بڑھیں۔ ایک طرف شیریں مزاری فارن آفس کو کوس رہی ہیں اسے حکومت کے خلاف کام کرنے کا الزام دے رہی ہیں اور دوسری طرف وفاقی وزیر امور کشمیر و گلگت بلتستان علی امین گنڈاپور کہہ رہے ہیں کہ دفتر خارجہ کی کارکردگی بہتر ہوئی ہے وہ تو کہتے ہیں کہ دفتر خارجہ نے عمران خان کی ہدایت پر کام کیا تو پہلی مرتبہ اقوام متحدہ نے کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی کو پہلی مرتبہ مانا ہے۔ اس سے قبل دفتر خارجہ میں غدار بیٹھے تھے جو بھارت کے لیے کام کر رہے تھے۔ تو یہ سب کیا انسانی حقوق کی وزارت کر رہی تھی یا ریلوے کی… یہ دونوں وزارتیں دفتر خارجہ پر کیوں برس رہی ہیں۔ علی امین گنڈا پور کی بات پر بھی غور کیا جائے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ حکومت کے اندر کے اختلافات کو اس بہانے ایک دوسرے کے خلاف استعمال کیا جا رہا ہو۔ اگر دفتر خارجہ اور وزیر خارجہ غلط کر رہے تھے تو وزیراعظم کو اب تک انہیں برطرف کر دینا چاہیے تھا۔ وزیر انسانی حقوق اور وزیراعظم یہ بتا دیں کہ اگر اقوام متحدہ اور او آئی سی کشمیر کے مسئلے پر تعاون نہ کر رہے ہوں تو پاکستان خاموش بیٹھ جائے۔ یا ہمنوا ممالک کو تلاش کرے۔ اس شور شرابے سے تو لگ رہا ہے کہ خاموش ہو کر کشمیریوں کی مدت کا انتظار کرنا چاہیے تھا۔علی امین نے دفتر خارجہ میں غداروں کے بیٹھنے کی بات کی ہے ان کو اس کی وضاحت کرنی چاہیے تاکہ ان غداروں کے خلاف کارروائی کی جا سکے۔ کسی ملک کی وزارت خارجہ میں غداروں کی موجودگی کا انکشاف اس سے بڑی خبر ہے جو شیریں مزاری بیان کر رہی ہیں۔