امت مسلمہ کے سیکورٹی رسک

506

پاکستان اور سعودی عرب کے کشیدہ تعلقات آج کل موضوع گفتگو ہیں۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے تندوتیز بیان نے ایک دوسرے کے تحفظ کے دعوے کرنے والے دو برادر ملکوں کے تعلقات کو ایک دوراہے پر کھڑا کردیا ہے۔ یہ ایک غیر معمولی صورتحال ہے۔ پاکستان کی خارجہ پالیسی میں آغاز کے ساتھ ہی پاک سعودی دوستی جوش ملیح آبادی کی نظم ’’اردو‘‘ کی مانند ہویدا ہوئی تھی:
ندی کا موڑ، چشمہ شیریں کا زیرو بم
چادر شب نجوم کی، شبنم کا رقص نم
موتی کی آب، گل کی مہک، ماہ نو کا خم
ان سب کے امتزاج سے پیدا ہوئی ہے تو
کتنے حسیں افق سے ہویدا ہوئی ہے تو
یہ دوستی اس وقت بگاڑ کا شکار ہوگئی جب وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے ایک ٹی وی چینل پر سعودی عرب کو مخاطب کرکے جچے تلے انداز میں کہا تھا ’’میں آج اسی دوست کو کہہ رہا ہوں کہ پاکستان کا مسلمان جو آپ کی سالمیت کے لیے لڑمرنے کے لیے تیار ہے آج وہ آپ سے تقاضا کررہا ہے کہ آپ وہ قائدانہ صلاحیت اور کردار ادا کریں جس کی امت مسلمہ آپ سے توقع کررہی ہے۔ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ او آئی سی آنکھ مچولی اور بچ بچاؤ کی پالیسی نہ کھیلے۔ انہوں نے کہا کہ کانفرنس کی وزرائے خارجہ کا اجلاس بلایا جائے اگر یہ نہیں بلایا جاتا تو میں خود وزیر اعظم سے کہوں گا کہ پاکستان ایسے ممالک کا اجلاس خود بلائے جو کشمیر پر پاکستان کے ساتھ ہیں۔ ان کے مطابق یہ اجلاس او آئی سی کے پلیٹ فارم یا اس سے ہٹ کر بلایا جائے۔ شاہ محمود قریشی نے اپنے ایک جملے میں لفظ ’ورنہ‘ کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ میرا نکتہ ٔ نظر ہے، اگر نہ کیا تو میں عمران خان صاحب سے کہوں گا کہ سفیرِ کشمیر اب مزید انتظار نہیں ہو سکتا، ہمیں آگے بڑھنا ہوگا ود اور ود آؤٹ۔
اسلامی ممالک کا اتحاد او آئی سی ایک ایسا لطیفہ ہے جسے دنیا میں کوئی سننے کے لیے تیار نہیں۔ ایک ایسا ادارہ جس کا دنیا میں کوئی کردار نہیں۔ او آئی سی میں بنیادی طور پر سعودی عرب کا اثر رسوخ سب سے زیادہ ہے جو 57ممالک کو بھیڑوں کی طرح چلارہا ہے۔ ایک ایسے بے اثر ادارے کے اگر کشمیر کے موضوع پر ایک دو اجلاس ہوجاتے تو پاکستان کو کیا حاصل ہو جاتا؟ اور بھارت کا کیا بگڑ جاتا؟ ود سعودی عرب اور ود آئوٹ سعودی عرب کیا کشمیر کا معاملہ اجلاسوں سے حل ہوسکتا ہے؟ یقینا معاملہ کچھ اور ہے۔
پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات آج جس رخ پر چل رہے ہیں اس میں وزیراعظم عمران خان کی حکومت اور سعودی عرب دونوں ذمے دار ہیں۔ عمران خان کو حکومت سنبھالنے کے بعد اسٹیبلشمنٹ نے سعودی عرب کی اہمیت کا احساس دلاتے ہوئے فوری طور پر سعودی شاہوں کی خدمت میں آداب بجالانے کا مشورہ دیا تھا۔ لیکن عمران خان تذبذب کا شکار تھے جسے سعودی عرب میں بھی ناگوار طور پر محسوس کیا گیا لیکن اس کے باوجود عمران خان کے دورے کے موقع پر چند ارب ڈالر ان کے کشکول میں ڈال دیے گئے۔ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے پاکستان میں عمران خان کی ڈرائیونگ کا بھی لطف اٹھایا جس کے بدلے میں انہوں نے بیس ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی آفر کی۔ لیکن خارجہ امور کی نزاکتوں سے نا آشنا عمران خان اسی وقت ایران، ترکی اور ملائشیا کے سعودی مخالف کیمپ میں جمپ کر گئے۔ یہ ممالک او آئی سی کے مقابل ایک تنظیم بنانے کے لیے کوشاں تھے۔ سعودیوں نے بھرپور ناگواری کے ساتھ عمران خان پر کوالالمپور کے اجلاس میں شرکت نہ کرنے پر زور دیا جس کے آگے اس سے بڑھ کر ناگواری کے ساتھ عمران خان کو جھکنا پڑا۔ عمران خان کی سعودی عرب اور ایران کے درمیان ثالثی کی پیشکش کو بھی سعودی عرب میں بری نظر سے دیکھا گیا۔ سعودیوں کے اس جارحانہ دبائو پر عمران خان بھی ناراض اور مشتعل ہوگئے۔ اس فضا میں بیس ارب ڈالر کی سعودی سرمایہ کاری بھی ہوا میں تحلیل ہوگئی۔ شاہ محمود قریشی کے تنقیدی تبصرے کے بعد سعودی عرب نے پاکستان کو 2018 میں دیے گئے 3.2 ارب قرض میں سے ایک ارب ڈالر واپس کرنے کا تقاضا کر دیا۔ جسے پاکستان نے ’’قرضہ کسی سے لے کر قرضہ چکا رہا ہوں‘‘ کے مصداق چین سے لے کرادا کیا۔
دوسری طرف سعودی عرب نے بھی قربتوں کو فاصلوں میں بدلنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ گزشتہ برس اگست میں کشمیر پر بھارت کے قبضے کے بعد سعودیوں نے پاکستان کے موقف کو گھاس کی پتی کے برابر وقعت نہ دیتے ہوئے اس مسئلے پر او آئی سی کا خصوصی اجلاس بلانے سے انکار کردیا۔ او آئی سی کے اجلاس کے انعقاد سے ہونا تو کچھ نہیں تھا لیکن بہرحال بھارت کے مقابل یہ پاکستان کی ہزیمت تھی۔ اس لیے پاکستان کی سول اور فوجی قیادت سعودی عرب کے رویے سے ناراض اور دل برداشتہ تھی۔ لہٰذا تعلقات میں بگاڑ شاہ جی کے بیان کے بعد نہیں آیا، پاک سعودی تعلقات پہلے ہی سرد ترین سطح پر تھے۔ ورنہ شاہ جی جو ایک ایک جملہ ناپ تول کر اور رک رک کر ادا کرتے ہیں اپنی ذمے داری پر اتنا بڑا دھماکا نہیں کر سکتے تھے۔
گزشتہ کئی برسوں میں خلیجی ممالک خصوصاً سعودی عرب کے بھارت کے ساتھ تعلقات میں اضافہ ہوا ہے۔ بھارت کے متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب کے ساتھ معاشی تعلقات کے علاوہ سیکورٹی پالیسی کے حوالے سے بھی تعلقات مزید بہتر ہو رہے ہیں۔ گزشتہ برس سعودی عرب نے پاکستان کے اس موقف کو کہ کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے یکسر مسترد کرتے ہوئے بھارتی آئین میں آرٹیکل 370 کے خاتمے کو بھارت کا داخلی معاملہ قراردیا تھا۔ محمد بن سلمان کی آمد کے بعد سعودی عرب کے بھارت کے ساتھ ساتھ اسرائیل کے ساتھ تعلقات تاریخ کے بہترین دور میں ہیں۔ ان کے تعلقات پہلے کبھی اتنے اچھے نہیں تھے۔ بھارت، اسرائیل اور سعودی عرب آج ایران کے خلاف امریکا کے ساتھ متحد ہیں۔ اسرائیل کی یہ بڑی کامیابی ہے کہ اسے ایک موثر ترین مسلم ملک سعودی عرب کی حمایت حاصل ہو رہی ہے۔ دوسری طرف چین کی یہ کوشش ہے کہ وہ پاکستان کو سعودی عرب اور امریکا سے دور کرکے پاکستان، ایران اور دیگر ممالک کا ایک اتحاد تشکیل دے۔ چین نے سعودیوں کی ڈیمانڈ پر جس طرح پاکستان کو ایک ارب ڈالر دیے ہیں یہ اسی سمت پیش رفت ہے ورنہ یہ چینیوں کا قرض دینے کا طریقہ نہیں ہے۔
پاکستان سعودی عرب اور تمام مسلم ممالک کے مسائل کی اصل وجہ یہ چھوٹے چھوٹے معاملات نہیں مسلم امہ کی حقیقت سے آنکھیں بند کر لینا ہے۔ شاہ محمود قریشی نے جس جھنجھلاہٹ اور بلند لہجے میں سعودی عرب سے امت مسلمہ کے لیے قائدانہ کردار ادا کرنے پر زور دیا ہے کیا انہوں نے اسی لہجے میں اپنی سول اور فوجی قیادت پر کبھی اس طرح زوردیا ہے۔ کشمیر میں روزانہ کی بنیادوں پر مسلم جوانوں بچوں اور بوڑھوں کو بے دردی سے شہید کیا جارہا ہے۔ مائوں، بہنوں، بیٹیوں کی عزتیں پا مال کی جارہی ہیں۔ ہماری قیادت نے لاشیں گننے اور ٹویٹ کرنے کے سوا کیا کیا ہے سوائے گانے اور نقشے جاری کرنے کے۔ جب آپ کے دل میں اہل کشمیر اور امت مسلمہ کا اتنا درد نہیں کہ بھارت کو منہ توڑ جواب دینا تو ایک طرف ایک گولی فائر کرسکیں تو سعودی عرب یا کسی اور سے کیا شکوہ۔ ان کھو کھلے نعروں اور ڈرامے بازیوں سے ہم بھارت کے مقابل علاقے ہی کھوتے چلے آئے ہیں۔ گورداسپور، حیدرآباد دکن، تین مشرقی دریا، مشرقی پاکستان، سیاچن اور اب مقبوضہ کشمیر۔ امت مسلمہ کے حوالے سے نہ پاکستانی قیادت میں کوئی احساس اور احساس ذمے داری ہے اور نہ سعودی عرب یا کسی اور اسلامی ملک میں۔ اس وقت تمام اسلامی ممالک کی قیادتیں اسلام دشمنوں کی دوست اور امت مسلمہ کے لیے سیکورٹی رسک ہیں۔