اسرائیل امارات امن معاہدہ یا تاریخی حماقت؟

468

متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے درمیان برسوں کے خفیہ معاشقے کا نتیجہ آخر کار دونوں کے درمیان باضابطہ امن معاہدے کی صورت سامنے آیا جس کے تحت متحدہ عرب امارات نے اسرائیل کو باقاعدہ طور پر تسلیم کرکے سفارتی، تجارتی، دفاعی سمیت لاتعداد شعبوں میں تعلقات قائم کرنے کا اعلان کیا۔ اس امن معاہدے کو تاریخی قرار دیا گیا۔ اسرائیل کو عرب دنیا میں تسلیم اور پزیرائی ملنے کا آغاز مصر کی طرف سے کیمپ ڈیوڈ سمجھوتے سے ہوا تھا اور بعد میں اردن سمیت کئی ہمسایہ عرب ممالک اس عمل میں شامل ہوتے چلے گئے، متحدہ عرب امارات کا فیصلہ اس راہ کا اہم پڑائو ہے۔ عربوں اور اسرائیل کے درمیان ہونے والے تمام معاہدات کی طرح اس معاہدے کو بھی امریکا کی حمایت اور سرپرستی حاصل ہے۔ امریکا نے اسرائیل کی راہ کے کانٹوں کو پلکوں سے چننے کا جو رواج ڈالا ہے اب وہ اس تجربے کو جنوبی ایشیا میں بھی بروئے کار لانا چاہتا ہے مگر پاکستان اس خطے میں جاں گسل مزاحمت کررہا ہے جس کی وجہ سے بہت سی اُلجھنیں پیدا ہو رہی ہیں۔ اس معاہدے کے ضامن ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ ابھی اس طرح کے اور معاہدے ہوں گے۔ ٹرمپ کا یہ اشارہ دوسرے عرب ممالک کی طرف ہے جن میں ممکنہ طور پر ایک اہم ملک سعودی عرب بھی ہو سکتا ہے۔ خطے کے دو ملکوں ایران اور ترکی نے اس معاہدے پر ناپسندیدگی کا کھلے بندوں اظہار کیا ہے۔ ترک صدر نے اسے حماقت قراردے کر متحدہ عرب امارات کے ساتھ اپنے تعلقات ختم کرنے کا عندیہ دیا ہے۔
اسرائیل کے لیے اس معاہدے میں یک گونہ خوشی اور اطمینان ہی جھلکتا ہے۔ ایک اور اہم مسلمان اور عرب ملک نے اس کا وجود تسلیم کرلیا۔ جس کا عرب رائے عامہ پر ایک مثبت اثر پڑے گا اور باقی مسلمان ممالک اور ریاستوں میں بھی اسرائیل کو تسلیم کرنے کی فیوض وبرکات سے فائدہ اُٹھانے کی سوچ تقویت حاصل کرے گی۔ امریکا کے لیے بھی یہ بڑی کامیابی ہے کیونکہ اسرائیل کے ساتھ امریکا کبھی ’’من وتو‘‘ کی تفریق میں نہیں پڑا۔ دونوں یک جان دو قالب جیسے رشتے میں بندھے ہیں۔ ٹرمپ کے لیے یہ ایک ذاتی کامیابی بھی ہے کہ امریکا کے سفارت خانے کو تل ابیب سے بیت المقدس منتقل کرنے کے بعد متحدہ عرب امارات کو اس فیصلے تک لانے کی شکل میں اسے دوسری بڑی کامیابی حاصل ہوئی اور یہ کامیابیاں اس کی انتخابی فتح کے لیے استعمال ہونے کا پوٹینشل رکھتی ہیں۔ متحدہ عرب امارات نے اس سے کیا کھویا اور کیا پایا؟ اس کا فیصلہ وقت ہی کرے گا۔ فی الحال اس معاہدے کے حوالے متحدہ عرب امارات کا دعویٰ ہے کہ اسرائیل غرب اردن کے علاقے کو اپنا حصہ بنانے اور مزید بستیاں تعمیر کرنے سے باز رہے گا۔ یہ ایک عارضی اسپیڈ بریکر ہے جس پر اسرائیل نے اپنا اختلافی نوٹ یوں درج کیا ہے کہ زمین کے معاملے پر اسرائیل اپنے موقف پر قائم ہے گویا کہ اسرائیل اپنی توسیع پسندی کے عزائم کسی طور بھی ترک نہیں کرے گا۔ یوں بھی گریٹر اسرائیل کے ہدف کی طرف پیش قدمی کیے بغیر موجودہ اسرائیل کا وجود بے معنی ہو کر رہ جاتا ہے۔
اسرائیل ایک خواب ہے اور اس کی تکمیل اور تعبیر عظیم تر بنے بغیر ممکن نہیں۔ عرب ملکوں نے اس خوب کو راہ دینا شروع کی۔ عظمت رفتہ کی بحالی اور ماضی کی راکھ میں اپنا وجود کی چنگاریاں تلاش کرنے کا یہ عمل مشرق وسطیٰ میں رواج پا گیا تو مودی بھی اس خطے میں ماضی کی ایسی عظمت رفتہ کی بحالی کا مہا بھارت کا خواب دیکھ رہا ہے۔ اس مہا بھارت میں پاکستان اور بنگلا دیش سمیت بہت سے خاکوں کا وجود نہیں۔ یہ ایک فسطائی مائنڈ سیٹ ہے۔ اس لیے پاکستان کے پاس اس عمل کی مزاحمت کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ متحدہ عرب امارات کی طرف سے اسرائیل کو تسلیم کیے جانے کے بعد پاکستان پر دبائو بڑھنا لازمی ہے۔ ان دنوں پاکستان کا میڈیا دوبارہ اسرائیل کو تسلیم کرنے کے فوائد اور عربوں کی بے وفائیاں گنواکر اس حوالے سے ماحول سازی اور ذہن سازی میں مصروف ہے۔ پاکستان کو بتایا جا رہا ہے کہ اسرائیل سے تعلقات قائم ہوتے ہی اس کے ہاں دودھ اور شہد کی نہریں بہنے لگیں گی۔ زراعت اور صنعت میں ایک انقلاب آئے گا۔ پاکستان کی بنجر زمینیں لہلہانے لگیں گی۔ پانی کا بحران ختم ہوگا اور چہار سو جل تھل ہوگا اور اسرائیل کے تعاون سے پاکستان دنیا کا خوش حال ملک بن کر اُبھرے گا۔ یہ ایک فریب نظر ہے۔ جو اسرائیل کے سرپرست امریکا کے ساتھ پاکستان تہتر برس سے چولی سے دامن کی طرح وابستہ اور پیوستہ ہے۔ امریکا کی تابع فرمانی کا عالم یہ ہے کہ کل تک ہمارا صدر وزیر اعظم آرمی چیف امریکا کی منظوری کے بغیر نہیں لگتا تھا۔ یہ تو بہت اوپر کا معاملہ ہے شہروں کے میئر اور وزیر تک امریکی سفارت خانے کی اجازت سے لگتے تھے۔ اس مثالی تعاون اور تعلق کے باوجود پاکستان کسی اجڑی ہوئی بیوہ کا منظر پیش کر رہا ہے۔ اب اسرائیل کا سفارت خانہ اسلام آباد میں کھلتے ہی پاکستان پر ’’من وسلویٰ‘‘ کی برسات کی امید دلانا سراب کے تعاقب سے زیادہ کچھ نہیں۔ یہی امید ایک بار امریکی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن نے بھارت کے معاملے میں بھی یہ کہہ کردلائی تھی کہ بھارت سے تعلقات قائم ہوتے ہی پاکستان کی معیشت راکٹ کی رفتار سے ترقی کرے گی۔ یہ پاکستان کو سی پیک اور چین سے دور رکھنے کے لیے پھینکا جانے والا ایک کارڈ تھا۔ اسی طرح اسرائیل کو تسلیم کرنے کی تصوراتی اور تخیلاتی فیوض وبرکات کا تعلق بھی سیاست سے ہے۔ چین اسرائیل کا چوتھا بڑا تجارتی شراکت دار ہے۔ اسرائیل چین مخالف کیمپ کا فعال کھلاڑی بھی ہے۔ یہ تضاد جب تک چلنا تھا چل گیا اب جس تیزی سے دنیا کی سیاسی اور دفاعی صورت گری ہو رہی ہے اس میں تعلقات ایک بار پھر تجارت کے بجائے سیاست کے زیر اثر ہوں گے۔ یہ سرد جنگ کی واپسی ہے۔ اس منظر میں پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات کو وقتی ملمع کاری سے نکل کر ازسرنو ترتیب پانا ہے۔