تحقیقات، مقدمات، گواہیاں، نتیجہ صفر

296

ملک میں مہنگائی اور کرپشن کے خلاف تحقیقات تیزی سے جاری ہے۔ دونوں کا کوئی سرا نہیں ملتا۔ ایک طرف شوگر کمیشن تحقیقات کررہا تھا جس کی رپورٹ کو سندھ ہائیکورٹ نے کالعدم قرار دے دیا اور نیب، ایف بی آر، ایف آئی اے ، ایس ای سی ، اسٹیٹ بینک وغیرہ کو ہدایت کی ہے کہ کمیشن رپورٹ سے متاثر ہوئے بغیر آزادانہ تحقیقات کریں۔ دوسری طرف شکر کی قیمت 110 روپے تک پہنچ گئی ہے۔ پشاور میں چینی سب سے زیادہ مہنگی ہے، صرف شکر نہیں بلکہ حکومت کے اپنے ادارہ شماریات کی رپورٹ ہے کہ ایک ہفتے میں کھانے پینے کی 15 اشیا کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے۔ اس کے ساتھ ہی خبر شائع ہوئی ہے جس میں آئی ایم ایف نے خوش خبری سنائی ہے کہ پاکستان میں معاشی بحالی کی توقع ہے۔ ایک اور ادارے فچ نے بھی پاکستانی معیشت میں اور شرح نمو میں بہتری کی پیش گوئی کی ہے لیکن اس شور کے باوجود معیشت میں بہتری ہوتی نظر نہیں آرہی ۔ شوگر کمیشن کے بارے میں عدالت کا کہنا ہے کہ کمیشن ہی جانبدار تھا۔ اس کی تشکیل نامکمل اوراس کی اشاعت میں تاخیر غیر قانونی تھی تو عدالت لگے ہاتھوں کمیشن بنانے والوں کو بھی طلب کرلیتی۔ اصل خرابی تو یہ ہے کہ عوام کا وقت ضائع کیا گیا ہے۔ کمیشن، انکوائری، تحقیقات پھر ریفرنس اس کے بعد ایک عدالت میں مقدمہ پیش کیاجاتا ہے اور جب کئی برس مقدمہ چل جاتا ہے تو اس کے خلاف اعلیٰ عدالت میں اپیل کردی جاتی ہے۔ مسئلہ حل نہیں ہوتا۔ جس کرپشن کے خلاف مہم چلائی جاتی ہے، جس کے لیے پورا ملک بلامارا جاتا ہے۔ د و خاندانوں کے پیچھے پورے ملک کی معیشت کو تباہ کرکے رکھ دیا گیا ہے ، اس کرپشن میں دو برس کے دوران دو سو فیصد اضافہ ہوچکا ہے۔ دہشت گردی، قتل و غارت، منی لانڈرنگ سب میں اضافہ ہی ہوا ہے۔ لیکن عدالتوں میں مقدمات چل رہے ہیں۔ تمام ادارے تحقیقات میں مصروف ہیں، مقدمات میں پیشیاں ہورہی ہیں کبھی پیشی کے موقع پر ہنگامہ ہوجاتا ہے اور پیشی نہیں ہوتی۔ ایک سوال پوچھا جارہا ہے کہ میاں نواز شریف ضمانت پر ہیں یا مفرور ہیں، ان کا نام ای سی ایل میں کس نے ڈالا۔ یہ سوال اب کرنے کا ہے؟؟ لیکن یہ سوال کیا جارہا ہے۔ کراچی کی بلدیہ ٹائون فیکٹری میں آگ لگائی گئی، 260 لوگ شہید ہوگئے، فیکٹری کے مالک کو بھی مجرم بنادیا گیا اور مجرم معزز ٹھیرے۔ اب مقدمہ، پیشی، خرچ سارا مقدمہ ازسرنو۔ جے آئی ٹی ختم نئی جے آئی ٹی بنے گی، ایک مقدمے میں کسی کو مجرم ثابت کردیا گیا ابھی سزا ہونے والی تھی کہ مقدمے کی سماعت ازسرنو ہونے لگی۔ 260 لوگوں کی زندگی کی کوئی اوقات نہیں، سارے ثبوت لوگوں کی آنکھوں کے سامنے ہیں لیکن گواہوں کی موجودگی ضروری ہے اور کراچی میں 260 لوگوں کو زندہ جلانے والوں کے خلاف گواہ کیسے آئے گا، کیسے کھڑا ہوگا اور زندہ کیسے رہے گا۔ عدالت، حکومت، فوج اور درجنوں ایجنسیاں اس کا تحفظ نہیں کرسکتیں۔ کرپشن کے بارے میں سارا ملک جانتا ہے کہ کون کرپشن میں ملوث ہے، کس نے کیا لوٹا لیکن مجال ہے جو لٹیروں کو سزا ہوجائے۔ سب کے مقدمے چل رہے ہیں اور لگتا ہے کہ چلتے ہی رہیں گے۔ ایک سال بعد جے آئی ٹی ختم کردی جاتی ہے۔ دو سال بعد ضمانت ہوجاتی ہے تو غلط مقدمہ قائم کرنے غلط فیصلہ دینے والا کیوں محفوظ رہتا ہے۔ پھر ملک میں خوشحالی کی خبریں دی جاتی ہیں۔ لوگوں کا دو وقت کی روٹی کا حصول مشکل ہے۔ صرف گزشتہ چار ماہ میں لاکھوں افراد بے روزگار ہوئے ہیں، چھوٹے دکانداروں کا ابھی سنبھلنا مشکل ہے۔ ان دکانداروں کو دو طرح مارا گیا ان کا کاروبار بند کیا گیا، ان کو سامان منتقلی سے روک دیا گیا۔ پھر دکان کھولنے کے لیے ان سے رقوم وصول کی گئیں۔ اب جب مارکیٹ کھلی ہے تو ان کو بحال ہونے میں کئی ماہ لگیں گے۔ لیکن فچ اور دوسرے اداروں کے پاس جو اعداد و شمار ہیں ان کے مطابق معیشت بہتر ہونے والی ہے۔ آئی ایم ایف تو ناقابل اعتبار ترین ادارہ ہے اس کا کوئی بھروسا نہیں۔ آج معیشت کی بہتری کی نوید سنائی ہے کل پاکستان میں معیشت کی تباہی کے خدشات بیان کیے جائیں گے۔ اپنی شرائط پر نئے قرضے منظور کرانے کے بعد معیشت میں بہتری کے آثار دکھائے جائیں گے۔ یہی کچھ ہوتا رہے گا کسی جانب سے کوئی ٹھوس کام نہیں ہورہا۔ اس وقت ملک میں احتساب احتساب کا شور حکومت کی طرف سے مچ رہا ہے۔ عدالتوں میں ججوں کے زیر دست ریمارکس ہیں۔ وزیراعظم کی طرف سے ترقی کے اعلان اور خوشخبریاں ہیں اور اپوزیشن کی طرف سے حکومت کی ناکامی کا اعلان ہے۔ اس ہولناک شور میں ایسالگ رہا ہے کہ گاڑی کے ایکسلریٹر پر کسی کا پائوں ہے بریک پرکسی اور کا اور ہینڈ بریک کسی اور نے کھینچا ہوا ہے۔ انجن کا شور ہے اور بس ۔ نتیجہ صفر