اخوانوں کی ترکی شہریت اور فرانس کا حملے کی تیاری

787

سید ابوالاعلیٰ مودودی کا مْقدمہ تفہیم القرآن میں کہنا ہے کہ اللہ کے نظام کو قائم کرنے کے لیے تحریک کے داعی کو ’’افکار اور نظریات اور اصولوں، عادات و فضائل سے بخوبی واقف ہونا ضروری ہے‘‘۔
مولانا مودودیؒ کی ان باتوں کو مصر اور اہل عرب نے تو بہت گہرائی سے سمجھا لیکن عرب حکمران بدقسمتی سے سوچنے سمجھنے اور غور کرنے سے عاری، صرف اس مشغلے میں مصروف ہیں کہ ان کے محلات ودسترخوان کی لمبائی، چوڑائی اور اس پر کھانوں کی اقسام کہاں تک جاری ہیں اس پر خاص توجہ دی جائے۔ لیکن دوسری جانب اسی عرب میں ’’حسن البنا کی سربراہی میں 1928ء میں ایک تنظیم ’’اخوان المسلمین‘‘ قائم کی گئی۔ اس تنظیم کا پھیلائو اور اس کے نظریات کو جلا بخشنے کے لیے سید جمال الدین اور سید ابواعلیٰ مودودی کی تعلیمات کا کردار کلیدی تھا۔ ’’اخوان المسلمین کے سربراہ حسن البنا کو اس تحریک کو بپا کرنے کے فوری بعد ہی کامیابی ملنے لگی اور صرف 12 سال 1940ء میں’’اخوان المسلمین‘‘ کے ارکان کی تعداد 40 لاکھ ہوگئی تھی۔ یہ بات بھی اہم ہے کہ اخوان نے مصر کی پارلیمنٹ میں بہت تیزی سے اپنی نشستوں میں اضافہ کیا اور 30جون 2012ء میں اخوان کا پہلا صدر محمد مرسی عیسیٰ العیاط مصر کے پہلے منتخب صدر بن گئے لیکن صرف دو سال کے اندر مرسی حکومت کے وزیر دفاع جنرل عبدالفتاح السیسی نے بغاوت کرتے ہوئے ان کو اقتدار سے ہٹانے کے لیے ملک میں مظاہرے شروع کروا دیے اور ان کو نہ صرف تخت سے محروم کیا گیا بلکہ ان کی مصری شہریت ختم کرکے ان کو پنجرہ نما چھوٹے کمرے میں قید کردیا گیا۔ صدر محمد مرسی عیسیٰ العیاط کو اسی پنجرے میں مصری عدالت میں پیشی کے دوران شہادت نصیب ہوئی۔ صرف مصر ہی میں نہیں بلکہ پورے عالم عرب میں ’’اخوان المسلمین کے ارکان میں تیزی سے اضافہ ہورہا تھا اور ہو رہا ہے‘‘۔
یہ ساری صورتحال قبضہ مافیا عرب حکمرانوں کے لیے تباہ کن تھی اِس خوف اور ڈر کے مارے مسلم حکمران عوام میں مقبول اسلامی تحریکوں کو تباہ و برباد کرنے میں مصروف ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ پورے عالم عرب میں یہ خوف روز بروز بڑھتا جارہا ہے کہ ’’اخوان برسراقتدار نہ آجائیں اور اسی سیلاب کو روکنے کے لیے پورا عرب اسرائیل کو تسلیم کرتے ہوئے تیزی کے ساتھ اقتدار کو بچانے کے لیے امریکا کی آغوش میں پناہ لینے پر مجبور نظر آتا ہے۔ دوسری جانب عالم کفر کی اخوان سمیت پوری دنیا کی اسلامی تحریکوں پر بہت گہری نظر ہے اور وہ اسلامی تحریکوں کو کچلنے کے لیے اسلامی ممالک کے مسلمان نما حکمرانوں کو استعمال کررہے ہیں۔ اس گھُپ اندھیرے میں اب ترکی اسلام کی شمع کو روشن کرنے میں مصروف نظر آ رہا ہے۔ ترکی نے حماس اور اخوان کے بہت بڑے بڑے ارکان کو ترکی کی شہریت دے دی ہے۔
ترکی کے اس اقدام کے فوراً بعد فرانس کا بحری بیڑہ بحرِ روم میں داخل کردیا گیا اور اس کے ساتھ رافیل طیارے ’’یونان‘‘ کے ائرپورٹ پر پرواز کرتے نظر آرہے ہیں۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ میں رافیل اور ایف 16کا ٹکراؤ کب ہوگا یہ تو معلوم نہیں لیکن فرانس اور ترکی کے درمیان یہ ٹکراؤ کبھی بھی ہو سکتا ہے۔
’’قبرص اور ترکی کے درمیان 1974ء کے تنازعے کو فیصلہ کن بنانے کے لیے فرانس کے صدر میکران نے لبنان کے دورے سے واپسی پر پہلا حکم یہ دیا کہ ترکی کے ساحلوں کے اردگرد گھیرا تنگ کردیا جائے تاکہ ترکی قبرص کے شمالی علاقوں پر قبضہ نہ کرسکے۔ ترکی کے ساحلوں سے منسلک قبرص کے شمالی علاقوں کو 1974ء سے ترکی اپنا علاقہ تسلیم کرتا ہے جب کہ قبرص یورپی یونین سمیت فرانس کا متعدد عالمی اتحاد میں اس کا ہمرکاب ہے۔ ان علاقوں میں گیس کے بہت بڑے ذخائر ہیں جن پر فرانس اور اس اتحادیوں کی نظر ہے اور وہ ان علاقوں کو ترکی میں شامل ہونے میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔
اخوان اور حماس کے ارکان کو ترک شہریت ملتے ہی اسرائیل اور اخوان حکومت کے صدر مرسی کے قاتل جنرل سیسی کی پریشانیوں میں بے پناہ اضافہ ہوچکا ہے۔ اسی وجہ سے اسرائیل سعودی عرب سمیت تمام عرب ممالک کو دھونس دھمکی سے اسرائیل کو تسلیم کرانے کے مشن پر کام کررہا ہے۔ قطر حکومت پر بھی دبائو بڑھایا جارہا ہے کہ اگر اس نے اسرائیل کو تسلیم نہ کیا تو اس کو ’’ورلڈ کپ کی میزبانی سے محروم کردیا جائے گا‘‘۔ یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ اسرائیل کا تجارتی دفتر 1996ء سے قطر میں موجود ہے جہاں سے ’’غزہ کی پٹی‘‘ پر فلسطینیوں کو خوراک پہنچائی جاتی ہے اور اس کی انسپکشن کے لیے اسرائیل کے افسران قطر میں موجود ہوتے ہیں۔ قطر کے بعد سوڈان پر اسرائیل کو تسلیم کرنے کے لیے دبائو ڈالا جارہا ہے اور وہاں بہت بڑے پیمانے پر ہنگامے جاری ہیں اور ملک عمر حسن البشیر کو قیدی بنائے جانے کے خلاف یہ ہنگامے پھوٹ پڑے تھے لیکن وہاں کے فوجی حکمران ان کو رہا کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ عمر البشیر کو موصول ہونے والے خفیہ پیغام کے مطابق ان پر دبائو ہے کہ وہ ’’اسرائیل کو تسلیم کرنے اعلان کریں‘‘۔ اردن کی جانب سے ’’ڈیل آف دی سنیچری‘‘ کی حمایت نہ کرنے پر ایک سال سے جاری ٹیچرز ہنگاموں میں تیزی آگئی۔ مصر میںسیسی کے
خلاف مظاہرہ کرنے والوں کے خلاف سخت ترین کریک ڈاون جاری ہے۔ INDEPENEN کا کہنا ہے کہ!
“Riot police Criak dawn on spontaneous demonstrations against President Sisi in cities across Egypt” ـ
مصر میں ہو نے والیسیسی مخالف مظاہر وں کے بارے میں The Guardain کاکہنا ہے کہ!”protesters and police clash in Egypt for second day running” تمام صورت حال سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ 1950ء کے بعد سے پوری دنیا کے مسلمان کسی نہ کسی حالت میں جسمانی آزادی حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے تھے اور اب 72 برسوں بعد وہ ذہنی آزادی کے لیے اپنا ’’نجات دہندہ‘‘ دنیا بھر میں موجود حماس، اخوان، حزب اللہ، طالبان، اور پاکستان، بھارت اور بنگلادیش میں جماعت اسلامی اور دیگر اسلامی تحریکوں کی جانب دیکھ رہے ہیں۔
سامراجی قوتوں کے ساتھ مصر، سعودی عرب، شام، متحدہ عرب امارات اور دیگر عرب و اسلامی ممالک کے سیکولر، ملحد، اشتراکی اور سوشلسٹ حکمران اسلام، جہاد اور اسلامی چھتری کو شامل کیے بغیر حکومتوں چلنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے، پاکستان میں ذوالفقار علی بھٹو ہوں یا لیبیا کے کرنل قذافی، مصر میں جمال عبدالناصر، حسنی مبارک اور اب جنرل عبدالفتاح السیسی اور اسی طرح دنیا بھر کے اسلامی ممالک کے حکمرانوں کے لیے ’’اسلامی‘‘ کا لفظ لگانا ضروری ہو گیا ہے۔ دنیا بھر کے اسلامی ممالک کے سربراہان ملک میں جیسا بھی نظام قائم کریں اسلام کا نام لگائے بغیر کام نہیں چلا سکتے ہیں۔ ’’پورا عالم عرب کچھ بھی کر لے اخوان، حماس، حزب اللہ کے بغیر حکومت کا بنانا ممکن ہی نہیں ہے۔