اپنی امت پر اقوامِ مغرب کا قیاس کر لیا گیا

362

مسلمانوں اور ایمان والوں کی تاریخ نہ جانے کتنی سنہری فتوحات سے بھری ہوئی ہے لیکن پوری تاریخ میں ان ساری فتوحات کے بعد کبھی اس طرح کا طوفانِ بد تمیزی برپا نہیں کیا گیا جس طرح پاکستان میں 14 اگست کو مچایا جاتا ہے۔ مسلمانوں کی خوشی کا اس وقت کیا ٹھکانا ہوگا جب مدینے سے ایک لشکر روانہ ہوا ہوگا اور ایمان والوں کا بڑھتا چڑھتا لشکر مکہ مکرمہ کی جانب رواں دواں ہو گا اور جس سر زمین سے پیغمبر آخری الزماں سیدنا محمدؐ اور ان کے ساتھیوں کو نہایت اذیت پہنچا کر اس بات پر مجبور کیا گیا تھا کہ وہ اپنی سر زمین چھوڑ دینے پر مجبور ہو گئے تھے، اسی سر زمین کو دوبارہ اہل کفار سے آزاد کرانے اور اللہ بزرگ و برتر کے نظام کو نافذ کرنے اور اسے فتح کرنے کے عزم سے آگے آگے اور آگے بڑھتے چلے جا رہے ہوں اور یہاں تک کہ پورے مکہ پر اس امن و آشتی کے ساتھ غالب آگئے ہوں کہ خون کا ایک قطرہ تک نہ بہا ہو تو اس وقت ان صحابہ کرام کی خوشی اور جذبوں کا کیا حال ہوگا اس کا اندازہ کون لگا سکتا ہے لیکن تمام تر کامیابی کے باوجود کیا فتح مکہ کے بعد بھنگڑے ڈالے گئے، گھوڑوں، اونٹوں اور مال مویشیوں کو مار مار کر چیخنے چلانے اور اْدھم مچانے پر مجبور کیا گیا، گلی کوچوں پر ماؤں، بہنوں اور بیٹیوں کو نچایا گیا، چیخ چیخ کر آسمان سر پر اٹھایا گیا، تلواروں کی جھنجھناہٹوں اور تیروں کی سنسناہٹوں سے فضا میں خوف و دہشت پھیلائی گئی اور ہر جانب میلے ٹھیلے لگا کر ایسی ہڑ بونگ برپا کی گئی کہ زمین و آسمان دھول مٹی سے اٹ کر رہ گئے۔
مکہ کی فتح کے بعد تو گویا کامیابیوں اور فتوحات کے ایسے دروازے کھلے کہ مسلمان جس سمت کا رخ کرتے عالم کفر اس طرح حلقہ بگوشِ اسلام ہوتا جاتا جیسے پورا عالم فتح مکہ کا منتظر رہا ہو۔ لوگ قافلہ در قافلہ، گروہ در گروہ اور جوق در جوق یوں اسلام قبول کرتے چلے گئے جیسے وہ صدیوں سے اسلام اور ایمان کے پیاسے ہوں اور ان کی مرادیں بن آئی ہوں۔ مسلمان آدھی دنیا پر حکمران بنے، ہزاروں جنگیں لڑیں، کسی کسی مقام پر حزیمت بھی اٹھانی پڑی اور بے شمار مقامات پر اپنے سے کئی گنا بڑے دشمن پر اتنی آسانی کے ساتھ غلبہ بھی حاصل کیا جیسے مکھن سے بال نکال لیا جاتا ہے لیکن کوئی ایک واقعہ ایسا نہیں ملتا جس میں مسلمانوں نے فتح و کامرانی حاصل کرنے کے بعد ایسا طوفان بدتمیزی مچایا ہو جیسا طوفان بدتمیزی پاکستان میں ہر سال 14 اگست کو مچایا جاتا ہے۔ فضا پٹاخوں اور گولیوں کی تڑتڑاہٹ سے گونج اٹھتی ہے، گلیوں میں لونڈے لپاٹے باجے گاجے لیکر نکل پڑتے ہیں، موٹر سائیکلوں اور گاڑیوں کے سائیلنسر نکال لیے جاتے ہیں، ہر فرد کا ہاتھ ہارنوں کے بٹنوں پر ہوتا ہے، لاؤڈ اسپیکروں کو پوری آواز کے ساتھ کھول دیا جاتا ہے اور میلوں دور تک پھیلے لوگ دیوار و در کو دھڑ دھڑاتے، گاتے اور شور مچاتے ایک ایسی منزل کی جانب چلے جا رہے ہوتے ہیں جس کا نہ تو کوئی کنارہ ہوتا ہے اور نہ ہی کسی کو یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس ساری اچھل کود کا مقصد و مدعا آخر ہے کیا۔ معاملہ اسی دھما چوکڑی تک محدود نہیں رہتا۔ رقص و سرود کی محافل سجتی ہیں، جسم فروش خواتین کو چوک چوراہوں پر نچایا جاتا ہے، ساغر و مینا کھنکنے لگتے ہیں اور پوری قوم ایسی بد مستی کا مظاہرہ کر رہی ہوتی ہے جیسے یہ ملک اسلام کے نفاذ کے لیے نہیں، ان ہی سب بیہودہ مشاغل کے لیے حاصل کیا گیا تھا۔
جہاں تک میری یاد داشت کام کرتی ہے 1947 سے لیکر 1979 تک پورے پاکستان میں یوم آزادی پاکستان کا جشن اس بیہودگی کے ساتھ کبھی نہیں منایا گیا۔ درس گاہوں میں پرچم کشائی کے ساتھ نہایت سادہ اور پروقار تقریبات میں پاکستان کے مقصد وجود پر سیر حاصل بات چیت کی جاتی تھی اور عمارتوں پر پاکستان کے پرچموں کو فضاؤں میں لہرایا جاتا تھا۔ جس بے ہنگم طریقے سے آج کل 14 اگست کو منایا جاتا ہے اس کی داغ بیل ضیا الحق کے دور میں ڈالی گئی۔ بے شک اس کے دور میں ایسی بدتمیزیاں برپا نہیں ہوا کرتی تھیں لیکن ہر گزرتے وقت کے ساتھ اس میں جس تیزی کے ساتھ اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے وہ تشویشناک ہی نہیں بلکہ شرم ناک بھی ہے۔ میں کوئی عالم تو نہیں لیکن قرآن میں بیان کیے گئے دو ایسے مقامات جس میں مسلمانوں کو عظیم فتح و کامرانی ملی ہو یا اللہ تعالیٰ کی جانب سے کوئی بہت بڑا انعام عطا کیے جانے کی نوید ہو، ایسے موقعوں پر اپنی خوشی کا اظہار کرنے کا جو طریقہ بتایا گیا ہے وہ صرف اور صرف ’’قربانی‘‘ ہے۔ فتح مکہ جیسی عظیم فتح پر سورت النصر میں فرمایا گیا کہ ’’اللہ کی تسبیح بیان کرو، استغفار کرو اور قربانی کرو‘‘ اور سورت الکوثر میں ’’کوثر‘‘ کے عطا کیے جانے پر بھی یہی فرمایا گیا کہ ’’قربانی‘‘ کرو۔ یہ ہدایات اس بات کی جانب اشارہ کر رہی ہیں کہ کامیابیوں کی صورت اور انعامات عطا ہونے پر خوشی و جشن منانے کا طریقہ صرف اور صرف اللہ کی شکر گزاری ہے، قربانی ہے، غریبوں میں خوشیاں بانٹنا ہے اور بے شک خود بھی خوب دعوت اڑانی ہے اور اپنے ساتھ جس جس کو بھی شریک کیا جا سکتا ہو شریک کرنا ہے۔ پاکستان جس مقصد کے تحت بنایا گیا تھا اس کا تقاضا بھی یہی کچھ ہے جس کی پاسداری ہر مسلمان پر فرض ہے لیکن لگتا ہے کہ ہم اقوامِ عالم سے اپنی ہر ’’ترکیب‘‘ میں مختلف ہونے کے باوجود ان کے ہم رنگ ہوتے چلے جارہے ہیں اور ہم میں وہ ایمانی رمق معدوم سے معدوم تر ہوتی چلی جا رہی ہے جس کا تقاضا ہم سے اسلام کرتا ہے۔