مولانا محمد جہاں یعقوب
مسلمانوں کے دوسرے خلیفۂ راشد، اعدل الاصحاب، امام العادلین، مرادِ رسول، شہیدِ محراب سیدنا عمر بن خطابؓ وہ صحابی ہیں جن کی فضیلت کے لیے اتنا کافی ہے کہ قرآن کریم ان کی رائے کی موافقت کرتا ہے اور سیدالمرسلین، خاتم الانبیاء ؐ نے ان کے لیے فرمایا: میرے بعد اگر کوئی نبی ہوتا تو وہ عمر ہوتا۔ (سنن ترمذی)
22لاکھ مربع میل پر حکومت کرنے والے خلیفے کی زندگی کا ایک ایک گوشہ اپنے اندر ایسے ان مٹ نقوش لیے ہوئے ہے جن کی اتباع کرنے والے بادشاہ ہوں یا رعایا سبھی راہِ ہدایت پر گام زن ہوجاتے ہیں۔ آپ کی اطاعتِ الہٰی، اتباعِ رسول، زہد وتقوی، اخلاق حسنہ، رعایا کی نگہبانی، یتیموں پر شفقت، غم زدوں کی غم گساری، غریبوں پر رحم، ناداروں کی دل جوئی، بے سہاروں کے ساتھ ہم دردی، عاجزی وانکساری، احساسِ ذمے داری، بیت المال سے حق دار کی خیر خواہی، یادِ آخرت وغیرہ تمام ہی صفاتِ عالیہ قابل تقلید ہیں۔
آپ کا نام مبارک ’’عمر‘‘ ہے، دور جاہلیت اور اسلام دونوں میں آپ کا نام عمر ہی رہا۔ آپ کا لقب فاروق ہے۔ اس لقب کے حوالے سے سیدنا علی المرتضی کرم اللہ تعالی وجہہ الکریم سے عرض کیا گیا کہ ہمیں سیدنا عمر بن خطابؓ کے متعلق کچھ بتائیے تو ارشاد فرمایا:
سیدنا عمر وہ ہستی ہیں، جنہیں اللہ عزوجل نے لقب فاروق عطا فرمایا، کیوں کہ آپ نے حق کو باطل سے جدا کردکھایا۔ (تاریخ ابن عساکر)
سیدہ عائشہ صدیقہ طیبہ طاہرہؓ سے عرض کیا گیا: عمر فاروقؓ کو فاروق کا لقب کس نے دیا؟ انھوں نے ارشاد فرمایا: نبی اکرمؐ نے دیا۔ (اسد الغابہ)
آپ کی کنیت ابو حفص ہے، جس کی نسبت آپ کی صاحبزادی سیدہ حفصہؓ کی طرف ہے، جو ام المؤمنین بھی ہیں۔ آپ کا لقب وکنیت دونوں محمدؐ کے عطا کردہ ہیں۔ سب سے پہلے امیرالمؤمنین کا لقب بھی سیدنا فاروق اعظمؓ کو دیاگیا۔
آپؓ کا نسب نویں پشت میں رسول اکرمؐ سے جا ملتا ہے۔ آپؐ کی نویں پشت میں کعب کے دو بیٹے ہیں مرہ اور عدی۔ رسول اللہؐ مرہ کی اولاد میں سے ہیں، جب کہ سیدنا عمرؓ عدی کی اولاد میں سے ہیں۔
آپؓ مکہ میں پید ا ہوئے اور ان چند لوگوں میں سے تھے جو لکھ پڑھ سکتے تھے۔ جب نبی اکرمؐ نے لوگوں کو اسلام کی دعوت دی تو سیدنا عمرؓ نے آپؐ کی سخت مخالفت کی۔ آپؐ کی دعا سے سیدنا عمرؓ نے اسلام قبول کر لیا۔ اس لیے آپ کو مراد رسول بھی کہا جاتا ہے۔ نبی کریمؐ نے اللہ تعالی سے دعا فرمائی تھی:
اے اللہ! ابوجہل اور عمر بن خطاب میں سے، جو آپ کو زیادہ محبوب ہو اس کے ذریعے اسلام کو غلبہ عطا فرما۔ ابن عمرؓ یہ روایت بیان کر کے آگے کہتے ہیں: اور آپؐ کو دونوں میں سے عمرؓ زیادہ محبوب تھے۔ (سنن ترمذی)
سیدنا عبداللہ بن مسعودؓ فرماتے ہیں: عمرؓ نے جب سے اسلام قبول کیا تب سے ہماری طاقت و قوت میں اضافہ ہوتا گیا۔ (صحیح بخاری )
ہجرت کے موقع پر کفار مکہ کے شر سے بچنے کے لیے سب نے خاموشی سے ہجرت کی، مگر آپ کی غیرت ایمانی نے چھپ کر ہجرت کرنا گوارا نہیں کیا۔ آپ نے تلوار ہاتھ میں لی، کعبے کا طواف کیا اور کفار کے مجمع کو مخاطب کر کے کہا: ’’تم میں سے اگر کوئی شخص یہ چاہتا ہو کہ اس کی بیوی بیوہ ہوجائے، اس کے بچے یتیم ہوجائیں تو وہ مکے سے باہر آکر میرا راستہ روک کر دیکھ لے‘‘ مگر کسی کافر کی ہمت نہ پڑی کہ آپ کا راستہ روک سکتا۔
سیدنا عمرؓ دین میں اس قدر پختہ تھے کہ انسان کا سب سے بڑا دشمن شیطان بھی ان کے مقابلے میں آنے سے کتراتا تھا۔ اسی حقیقت کے متعلق نبی مکرمؐ کی گواہی ہے: اے ابن خطاب! اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! جب کبھی شیطان کا سرِ راہ تم سے سامنا ہوتا ہے تو وہ تمہارا راستہ چھوڑ کر دوسرے راستے پر چل دیتا ہے۔ (صحیح بخاری)
یہ بات بھی بہت مشہور ہے کہ سیدنا عمرؓ جو موقف اختیار کرتے تھے تو اس کی تائید میں قرآن مجید نازل ہو جاتا تھا۔ جیسا کہ صحیح مسلم کی روایت میں ہے:
مقام ابراہیم کو مستقل جائے نماز بنانے کی رائے، امہات المومنین کو حجاب کا حکم دینے کی رائے، بدر کے قیدیوں سے متعلق رائے کے ذریعے عمرؓ نے اپنے رب سے موافقت کی تھی۔ (صحیح مسلم)
سیدنا ابوبکر صدیقؓ کی خلافت کے بعد سیدنا عمرؓ کی خلافت کی طرف رسول کریمؐ کا صاف اشارہ ایک حدیث سے یوں ملتا ہے:
دوران خواب میں نے اپنے آپ کو ایسے کنویں پر پایا جس کی منڈیر نہیں تھی، اس میں ایک ڈول تھا۔ میں نے اس کنویں سے جتنے اللہ تعالی نے چاہے‘ ڈول کھینچے، پھر اس ڈول کو ابن قحافہ (ابوبکرؓ) نے تھام لیا۔ انھوں نے اس کنویں سے ایک یا دو ڈول کھینچے، ان کے کھینچنے کی کمزوری کو اللہ معاف فرمائے، اس کے بعد ڈول بڑے ڈول میں تبدیل ہوگیا اور اس کو ابن الخطابؓ نے پکڑ لیا۔ میں نے انسانوں میں کوئی مضبوط طاقت ور شخص نہیں دیکھا جو عمر کی طرح ڈول کھینچتا ہو۔ اس نے اتنے ڈول کھینچے کہ سب لوگ جانوروں اور زمین سمیت سیراب ہو گئے۔ (بخاری)
یہ حدیث سیدنا عمر بن الخطابؓ کی خلافت کی واضح دلیل ہے کہ ابوبکر صدیقؓ کے بعد وہی خلیفہ راشد قرار پائیں گے۔ عمرفاروقؓ کی خلافت وامامت پر نہ صرف صحابہؓ بلکہ تمام امت مسلمہ کا اجماع ہے۔
سیدنا علی المرتضیؓ خود بھی سیدنا عمرؓ کے مداح تھے۔ ابن عباسؓ بیان کرتے ہیں کہ میں ان لوگوں میں کھڑا تھا، جو عمرؓ کے لیے اس وقت دعا کر رہے تھے جب آپ کو چارپائی پر لٹایا گیا تھا۔ اچانک میرے پیچھے سے ایک شخص نے اپنی کہنی میرے کندھوں پر رکھی اور یوں دعا کی: ’’اللہ تعالی آپ پر رحم فرمائے، مجھے اللہ تعالی سے امید تھی کہ وہ آپ کو آپ کے دونوں ساتھیوں کے ساتھ ہی جمع کر دے گا، کیوں کہ میں اکثر و بیشتر رسول اللہؐ سے یہ الفاظ سنا کرتا تھا ’’میں، ابوبکر اور عمر تھے، میں ابوبکر اور عمر نے یوں کیا، میں ابوبکر اور عمر گئے‘‘ تو اسی لیے مجھے امید تھی کہ آپ کو اللہ تعالی آپ کے ساتھیوں کے ساتھ ہی اکٹھا کر دے گا‘‘۔ ابن عباسؓ کہتے ہیں: میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو وہ علیؓ تھے جو یہ دعا کر رہے تھے۔ (بخاری )
سیدنا عمرفاروقؓ نے جن علاقوں کو فتح کیا وہاں آج بھی سیدنا عمرفاروق کا نظریہ موجود ہے، دن رات کے پانچ اوقات میں مسجد کے میناروں سے اس نظریے کا اعلان ہوتا ہے۔ عمرفاروقؓ نے دنیا کو ایسے سسٹم دیے جو آج تک دنیا میں موجود ہیں۔ آپ کے عہد میں باجماعت نماز تراویح کا باقاعدہ سلسلہ شروع ہوا، آپ کے دورمیں شراب نوشی کی سزا 80 کوڑے مقرر ہوئی، سن ہجری کا اجرا کیا، جیل کا تصور دیا، مؤذنوں کی تنخواہیں مقرر کیں، مسجدوں میں روشنی کا بندوبست کروایا، باوردی پولیس، فوج اور چھاؤنیوں کا قیام عمل میں لایا گیا، آپ نے دنیا میں پہلی بار دودھ پیتے بچوں، معذوروں، بیواؤں اور بے آسرا لوگوں کے وظائف مقررکیے۔ آپ نے دنیا میں پہلی بار حکمرانوں، گورنروں، سرکاری عہدے داروں کے اثاثے ڈکلیئر کرنے کا تصور دیا۔ آپ جب کسی کو سرکاری عہدے پر فائز کرتے تھے تو اس کے اثاثوں کا تخمینہ لگوا کر اپنے پاس رکھ لیتے اور اگرعرصۂ امارت کے دوران عہدے دار کے اثاثوں میں کوئی غیر معمولی اضافہ ہوتا تو اس کی تحقیق کرتے۔ یہ وہ سسٹم ہے جس کو دنیا میں کوئی دوسرا شخص متعارف نہ کروا سکا، دنیا کے 245 ممالک میں یہ نظام کسی نہ کسی صورت میں موجود ہے۔ ان حقائق کی روشنی میں زبان وقلم بے اختیار گواہی دیتا ہے کہ دنیا کے سکندر اعظم عمرفاروقؓ ہیں۔
امیر المومنین عمر فاروقؓ کو حج سے واپسی کے بعد ابو لؤلو نامی مجوسی ایرانی غلام نے خنجر کے پے در پے تین وار کرکے شدید زخمی کردیا۔ آپ تین دن اسی حالت میں رہے، مگر نماز کوئی نہ چھوڑی، پھر یکم محرم الحرام کو دس سال پانچ مہینے اور اکیس دن مسند خلافت پر متمکن رہنے کے بعد 63 برس کی عمر میں آپ شہید ہوگئے۔ آپ اکثر یہ دعا فرمایاکرتے تھے: الہی! تو مجھے اپنی راہ میں شہادت کی موت عطا فرما اور اپنے رسولؐ کے شہر مدینے میں مرنا نصیب فرما۔
آپ نے وصیت کرتے ہوئے فرمایا: جب مجھے قبر میں رکھ دو تو میرا گال زمین سے یوں ملا دینا کہ اس کے اور زمین کے درمیان کوئی چیز حائل نہ رہے۔آپ کو بیری کے پتوں سے پانی گرم کرکے غسل دیا گیا اور دو چادروں اور جو قمیص پہن رکھی تھی اس میں کفنایا گیا۔ وصیت کے مطابق آپ کی نمازِ جنازہ سیدنا صہیبؓ نے چار تکبیروں کے ساتھ پڑھائی اور یکم محرم الحرام کو روضۂ رسول میں دفن ہونے کی سعادت پائی۔ (اسدالغابہ، طبقات کبریٰ)