انصاف کی شاخوں سے توقع تو نہیں ہے

239

’’انصاف کی شاخوں سے توقع تو نہیں
آپ کہتے ہیں تو زنجیر ہلا دیتا ہوں‘‘
انصاف کی زنجیر ہلانے کے لیے ریلوے اسٹیشن ماسٹر حافظ عبدالرحمن ہر فورم پر آواز اٹھانے کے باوجود ناکامی کا سامنا کرچکے ہیں۔ ہمارے ملک میں کرپشن کا جن ویسے ہی بے قابو ہے اور اگر غلطی سے کوئی ایماندار شخص عہدہ پر آجائے اور ایمانداری سے اپنے فرائض انجام دے تو ان اداروں میں موجود آستین کے سانپ وقتاً وفوقتاً مختلف انداز سے ڈستے رہتے ہیں تاکہ کرپشن کا زہر ایمانداروں میں بھی سرایت کر جائے یا پھر انسان خود تنگ آکر میدان عمل چھوڑ دے۔ ایسی ہی صورتحال کا سامنا اسٹیشن ماسٹر پاکستان ریلوے حافظ عبد الرحمن کو کرنا پڑ رہا ہے جنہوں نے ریلوے ڈویژن راولپنڈی میں ایک میگا کرپشن کی نشاندہی کی۔ گھوسٹ ملازم کی بوگس تنخواہ چارج کرنے کی بابت قومی ادارے کو لاکھوں کا نقصان پہنچایا گیا۔ جس کی تفصیل کچھ یُوں ہے کہ پاکستان ریلوے راولپنڈی ڈویژن کے شعبہ ٹریفک میں گھوسٹ ملازم محمد منیر ولد خدا بخش عرصہ نو دس سال سے بوگس تنخواہ پہلے کھیوڑہ ریلوے اسٹیشن پہ پھر لالہ موسٰی میں باقاعدگی سے چارج کرواتا رہا اس سے قومی خزانے کو لاکھوں کروڑوں کا نقصان ہوا۔ اس کرپشن کے مرکزی ملزم سابق ٹریفک انسپکٹر پاکستان ریلوے ملکوال کی طرف سے بوگس حاضری مہیا کی جاتی رہی جس پہ گھوسٹ ملازم کی بوگس تنخواہ چارج ہوتی رہی۔ حافظ عبد الرحمن اسٹیشن ماسٹر نے اپنے تحریری بیان کے ساتھ چیف جسٹس، ڈی جی اینٹی کرپشن اور ڈی جی ایف آئی اے اور متعلقہ اداروں سے اپیل بھی کی کہ کرپٹ سابقہ ریلوے انسپکٹر ملکوال حال تعینات ACM-II لاہور کے خلاف نہ صرف اعلیٰ سطح کی غیر جانبدارانہ تحقیقات کروائی جائیں بلکہ مجرم کو قرار واقعی سزا دے کر قومی خزانے کو جو نقصان پہنچا ہے ان سے وصول کیے جائیں۔ پرنٹ و سوشل و الیکٹرونک میڈیا، پولیس، نیب، ایف آئی اے اور اینٹی کرپشن کے ہر فورم پر رجوع کیا، چیف جسٹس آف پاکستان کو خط لکھا، ایچ آر ونگ سپریم کورٹ کو خط لکھا مگر کوئی ردعمل یا کاروائی نظر نہیں آئی، نیب راولپنڈی کو کہا گیا کہ یہ اسیکنڈل 50لاکھ سے کم ہے لہٰذا آپ اس کی براہ راست تفتیش نہیں کر سکتے آپ اسے سیکرٹری ریلوے کو Refer کر دیں جس پہ Nab نے سیکرٹری ریلوے کو تحقیقات کے لیے تفویض کیا۔ سائل نے FIA ڈائریکٹر لاہور سے رجوع کیا تو انہوں نے درخواست تھانہ رحمانیہ گجرات میں تعینات انسپکٹر زاہد فاروق کو مارک کی جو دو سال گزر جانے کے باوجود تاحال کوئی حتمی نتائج سامنے نہ لاسکا۔
اگرچہ یہ اسکینڈل لگ بھگ 200 اخبارات میں چھپ چکا ہے مگر انصاف تو دور کی بات کرپٹ مافیا اسٹیشن ماسٹر حافظ عبدالرحمن کی جان کے دشمن بن گئے اور 7فروری 2019 کو اسٹیشن ماسٹر پکھووال کے ذریعے قاتلانہ حملہ کروایا جس کی FIR تھانہ لالہ موسیٰ میں درج ہوئی۔ FIR میں نامزد مرکزی ملزم ناصر علی اسٹیشن ماسٹر پکھووال کو سابقہ اسسٹنٹ ٹرانسپورٹیشن آفیسر سرگودھا اور حال تعینات اسسٹنٹ ٹرانسپورٹیشن آفیسر لاہور مرضیہ زہریٰ نے اختیارات کا غلط استعمال کرتے ہوئے اسکیل نمبر 13سے اسکیل نمبر 16 میں 50 لوگوں کو سپرسیڈ کرتے ہوئے تقرر کر دیا جس کا وہ قطعاً اہل نہیں۔ الزام علیہا مرضیہ زہریٰ نامزد مرکزی ملزم غلام عباس کے ساتھ ملکر نہ صرف گھوسٹ ملازم کی بوگس تنخواہ چارج کرواتی رہی بلکہ مذکورہ ملزم کے ساتھ ملکر بوگس انسپکشن کی مد میں بوگس ٹی اے ڈے کلیم کرتی رہی جو لاکھوں میں بنتا ہے۔
حافظ عبدالرحمن پر کرپٹ مافیا نے نہ صرف قاتلانہ حملہ کروایا بلکہ بدستور جان سے مارنے کی دھمکیاں موصول ہورہی ہیں۔
کرپشن کی نشاندہی کرنے کی پاداش میںاسسٹنٹ ٹرانسپورٹیشن آفیسر لاہور نے اختیارات سے تجاوز کرتے ہوئے ایک ماہ میں 15 مختلف اسٹیشنوں پہ تبادلے کیے۔ اور فروری 2019 کی تنخواہ رُکوا دی جو تاحال نہیں ملی اور ستمبر 2019 کی تنخواہ سے غیر قانونی طور پہ مبلغ 10 ہزار روپے کٹوا دیے۔ اور سنیارٹی لسٹ میں پروموشن کے لیے پہلا نمبر ہونے اور ڈھیروں آسامیاں خالی ہونے کے باوجود دو سال سے پروموشن بھی نہیں ہونے دی جارہی ہے اسٹیشن ماسٹر حافظ عبدالرحمن کا منہ بند کروانے اور کیس واپس لینے پر مجبور کرنے و کرپشن اسکینڈل کی پیروی چھوڑنے کے لیے بدستور قتل کی دھمکیاں دی جارہی ہیں۔
سوال یہ ہے کہ کیا اداروں میں موجود کالی بھیڑوں کو بے نقاب کرنا جرم ہے؟ انصاف کب تک کرپشن کے در پر ماتھا ٹیکے گا؟ سچ اور انصاف کا خواب کب تک شرمندہ تعبیر نہ ہوگا؟ آخر کب تک؟؟
انصاف سیم و زر کی تجلی نے ڈس لیا
ہر جرم احتیاجِ سزا سے گزر گیا