حکومت کی 2 سالہ کارکردگی

299

گزشتہ ہفتے حکومت عوام کے سامنے اپنی 2 سالہ کارکردگی پیش کرنے اور انہیں مطمئن کرنے میں مصروف رہی، کیوں کہ 2 سال پہلے 18 اگست 2018ء کو عمران خان نے وزیراعظم کا حلف لیا تھا۔ چناں چہ وزیراعظم، وفاقی وزرا، مشیران کرام، صدر مملکت اور پارٹی کے عہدیدار عوام کو خوشخبریاں سنانے، سہانے سپنے دکھانے، حالات میں بہتری کا یقین دلانے اور مخالفین کے خلاف سخت ایکشن لینے کا عزم ظاہر کرنے میں مصروف رہے۔ مثلاً بحران کے دور سے نکل گئے ہیںم عوام مزید خوشخبریاں سنیں گے، وزیراعظم صاحب لمبی اننگ کھیلیں گے، ملک پر مافیاز کا قبضہ ہے، وزیراعظم ان مافیاز کو نہیں چھوڑیں گے، اپوزیشن کو این آر اوز نہیں دیں گے۔ اس سلسلے میں حکومت کی 2 سالہ کارکردگی کو ایک کتابی شکل میں بھی پیش کیا گیا ہے جو تحریک انصاف کی ویب سائٹ پر بھی موجود ہے جس میں مختلف ڈویژنوں اور وزارتوں نے کارکردگی کو کم اور آئندہ کے لیے سوچ (Vision)، عزم و ارادے منصوبہ بندی کو زیادہ بیان کیا گیا ہے۔
تحریک انصاف نے حکومت میں آنے سے قبل پاکستانی عوام کے سامنے جو وعدے کیے تھے جو پروگرامز پیش کیے تھے اُن میں جنوبی پنجاب کے نام سے صوبے کا قیام، فاٹا کے لیے ترقیاتی پیکیج، ٹیکس اصلاحات اور سیاحت کا فروغ، غربت میں کمی، معیشت میں بہتری اور زرعی شعبے میں کسانوں کے لیے مالیاتی پیکیج شامل ہیں۔ اس کے علاوہ کراچی کے لیے ترقیاتی پروگرام کا اعلان کیا گیا تھا جس میں امن وامان کی بہتری، بلدیاتی نظام کو بااختیار بنانا، چائنا کٹنگ اور بھتہ خوری کا خاتمہ اور پبلک ٹرانسپورٹ سسٹم کی بہتری و بحالی شامل تھے۔ اگر آج 2 سال کے بعد ملکی معیشت کا جائزہ لیا جائے تو ملک کی مجموعی قومی پیداوار، امریکی ڈالر کے حساب سے 2018ء میں 320 ارب ڈالر تھی، اس وقت 280 ارب ڈالر ہے، فی کس شرح آمدنی 1250 امریکی ڈالر تھی آج 1075 ہے۔ معاشی نمو کی رفتار ترقی 5.7 فی صد تھی۔ اب 0.5 فی صد منفی ہے۔ روپے کی قدر 104 امریکی ڈالر تھی آج 169 روپے کا ایک ڈالر ہے۔ کرنٹ اکائونٹ خسارہ 22 ارب ڈالر تھا اب کم ہو کر تقریباً 4 ارب ڈالر ہے۔ آٹا 50 روپے کلو سے 80 روپے کلو ہوگیا ہے۔ چینی 60 روپے سے 100 روپے فی کلو، دودھ 80 روپے سے 93 روپے فی لٹر۔ اسی طرح دوسری اشیائے خوردنوش، بجلی اور گیس کے نرخ، پٹرول اور ڈیزل کی قیمتیں بہت اوپر جاچکی ہیں۔
اس وقت حکومت کی ناتجربہ کاری، بدانتظامی اور نااہلی کے باعث مختلف اشیا کی پیداوار، سپلائی اور قیمتیں مافیاز کے ہاتھوں میں ہیں اور وہ جب چاہیں قلت پیدا کردیتے ہیں۔ جب چاہیں قیمتیں بڑھادیتے ہیں اور حکومت اِن مافیاز کے سامنے بے بس ہے۔ مثال کے طور پر پچھلے چند ماہ میں آٹے اور چینی کا بحران عوام بھگت چکے ہیں۔ شوگر ملز مالکان کے خلاف کمیشن بنایا گیا اور اس نے انکوائری شروع کردی۔ شوگر مافیا نے ایف آئی اے کے ڈائریکٹر واجد ضیا کو دھمکی دی کہ اُن کے خلاف انکوائری روک دی جائے ورنہ شوگر 110 روپے فی کلو بک رہی ہے اس سے پہلے حکومت آئل کمپنیز کے مافیاز کے سامنے گھٹنے ٹیک چکی ہے۔ اسی طرح حکومت کے الیکٹرک کے سامنے بھی بے بس نظر آتی ہے۔ حال ہی میں سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کے سامنے کے الیکٹرک کا معاملہ زیر بحث آیا جس میں بتایا گیا کہ اس کمپنی کو وفاقی حکومت کو 144 ارب روپے کا نقصان پہنچایا ہے اور عوام کے 44 ارب روپے عدالت سے حکم امتناعی کی بنیاد پر دبائے ہوئے ہیں۔ اگر حکومت عوام کو اِن طاقتور مافیاز سے نجات دلادے تو یہی سزا احسان ہوگا۔