اسرائیل کو تسلیم نہ کرنے کا اعلان

485

وزیر اعظم عمران خان نے اپنی حکومت کے دوسال مکمل ہونے کے موقع پر ایک ٹی وی چینل کو طویل انٹرویو میں جہاں بہت سی اہم باتیں کی ہیں وہیں وقت کے سلگتے اور گرما گرم موضوع اسرائیل کو تسلیم لیے جانے پر بھی کسی لگی لپٹی کے بغیر بات کی ہے۔ متحدہ عرب امارات کی طرف سے اسرائیل کو تسلیم کیے جانے کے بعد اب یہ معاملہ خطے کے دوسرے ممالک سمیت پاکستان کے دروازے پر بھی دستک دے رہا تھا۔ متحدہ عرب امارات کے بعد اب سعودی عرب امریکا کے شدید دبائو میں ہے اور امریکا سعودی عرب کو ایران کا خوف دلاکر اسرائیل کو تسلیم کروانا چاہتا ہے۔ خلیج کے کئی چھوٹے ممالک بھی رفتہ رفتہ اس راہ پر لڑھکتے نظر آرہے ہیں۔ اسلامی دنیا میں ترکی، پاکستان، ایران، ملائیشیا ایک واضح لائن لیے بیٹھے ہیں۔ جب بھی کوئی عرب ملک اسرائیل کے ساتھ راہ روسم بڑھاتا ہے پاکستان کو اس کی مثال دے کر اسرائیل کے ساتھ تعلقات کے قیام پر آمادہ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ متحدہ عرب امارات کے فیصلے نے ایک بار پھر پاکستان کو اسی مقام پر لاکھڑا کیا تھا۔ اس فہرست میں سعودی عرب کا اضافہ ہوا تو پاکستان میں داخلی اور خارجی طور پر اسرائیل کو تسلیم کرنے کی حمایت میں ایک طوفان برپا ہونا یقینی تھا۔ جنرل قمر جاوید باجوہ کے دورہ سعودی عرب کے فوراً بعد ہی سعودی عرب کی طرف سے بھی ’’اگر مگر‘‘ کے ساتھ اسرائیل کو تسلیم نہ کرنے کا اعلان کیا جس کے بعد پاکستان پر بھی اسرائیل کو تسلیم کرنے کے حوالے سے اندر اور باہر سے پڑنے والے دبائو میں کمی ہوگئی۔ پاکستان کے اندر اور باہر سعودی عرب کی مثال دے کر پاکستان کو اسرائیل کو تسلیم کرنے کی طرف دھکیلا جانا یقینی نظر آرہا تھا۔
ملک کے اندر یہ سوچ مضبوط ہورہی تھی کہ پرویز مشرف کے طرح عمران خان کی حکومت اسرائیل کو تسلیم کرنے کے لیے بے تاب اور آمادہ ہے۔ اس فضا میں عمران خان نے اسرائیل کو تسلیم کرنے کے حوالے سے دوٹوک انداز میں کہا ہے کہ ساری دنیا اسرائیل کو تسلیم کرے مگر پاکستان ایسا نہیں کرے گا۔ موجودہ حالات میں اسرائیل کو تسلیم کرنے کا مطلب یہ ہے کہ کشمیر کو چھوڑ دیا جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ اسرائیل اور فلسطین کے بارے میں ہمیں اللہ کو جواب دینا ہے میرا ضمیر یہ کبھی نہیں مانے گا۔ اس طرح یہ افواہیں جھاگ کی طرح بیٹھ گئیں کہ حکومت کسی بیرونی دبائو کے تحت اسرائیل کو تسلیم کرنے کی طرف جارہی ہے۔ اس سے جڑی ہوئی ایک اور وضاحت بھی اہم ہے کہ پاکستان کا مستقبل چین کے ساتھ وابستہ ہے چین نے ہر اچھے برے وقت میں پاکستان کا ساتھ دیا ہے چین کے ساتھ اپنے تعلقات کو مزید مضبوط کر رہے ہیں۔ چین کو بھی ہماری ضرورت ہے۔ چین کے ساتھ مستقبل کی وابستگی کے اظہار کا یہ واضح اعلان بھی اسرائیل کو تسلیم نہ کرنے سے کم اہم نہیں۔ ان دونوں وضاحتوں سے اندازہ ہورہا ہے کہ پاکستان کی ریاست نے اجتماعی طور پر اپنے لیے کس راستے کا انتخاب کیا ہے۔ یہ علاقائی تناظر کے ساتھ بین الاقوامی منظر کے لحاظ سے بھی خاصا اہم معاملہ ہے۔ اس سے یہ حقیقت عیاں ہو رہی کہ پاکستان اب چین اور امریکا کے درمیان زورا زوری اور کھینچا تانی کے دور سے نکل چکا ہے۔ پاکستان عالمی منظر نامے میں اپنے مستقبل کے مقام کا تعین کر لیا ہے۔ اب پاکستان چین کے معاون کے طور علاقائی ملکوں کو اس مقام تک لانے کی اپنی سی کوششوں میں شریک ہے۔
اسرائیل کو تسلیم نہ کرنے کا تعلق بھی مستقبل کے اسی نقشے کے ساتھ ایک اصول کے ساتھ ہے۔ وہ اصول یہ ہے کہ پاکستان خطے میں اس صورت حال کا سامنا کررہا ہے جس کا سامنا پچاس برس پہلے مشرق وسطیٰ میں مصر اور اردن جیسے عرب ممالک کو تھا۔ یہ عرب ملک فلسطینیوں کی تحریک آزادی کے ضامن اور وکیل تھے۔ ان کی حمایت فلسطین کی تحریک کی زندگی اور ان کے مستقبل کی ضمانت تھی۔ ان ملکوں کی اجتماعی قوت کے خوف نے اسرائیل کو فلسطینیوں کا وجود مکمل طور پر ختم کرنے اور ان کی زمین ہڑپ کرنے سے روکا تھا۔ رفتہ رفتہ امریکا نے خطے میں امن کے نام پر جنگی جرائم کو تحفظ دینے کا ایک کھیل کھیلنے کا آغاز کیا۔ عربوں کی اجتماعی طاقت کو ایک ایک کرکے تقسیم کیا گیا۔ پہلے مصر پھر اردن سے معاہدہ کیا اور یوں فلسطینی عوام بیرونی حمایت سے محروم ہوتے چلے گئے۔ ہر معاہدہ فلسطینی عوام کے بہتر مستقبل اور امن کے نام پر ہوا ہر تسلیم ورضا کے لیے انہی لفظوں اور اصطلاحات کا سہارا لیا گیا مگر ہر معاہدے کے بعد امن ایک سراب رہا اور فلسطینیوں کے مصائب اور دکھ بڑھتے چلے گئے۔ ان کی بے وطنی کا عذاب کم ہونے کے بجائے بڑھتا گیا۔ ان کی شناخت کا بحران مزید گہرا ہوتا چلا گیا۔ ان کی زمین سکڑتی اور سمٹتی چلی گئی۔ ان کی نسلیں مہاجر کیمپوں میں پیدا ہو کر وہیں رزق خاک بنتی رہیں۔ جن فلسطینیوں کو اچھے دنوں کا خواب دکھا کر یہ معاہدات ہوئے وہ دن کبھی طلوع نہ ہو سکا اور جس امن کے نام پر یہ بساط بچھائی جاتی رہی وہ فلسطینی بچوں کے ایک پتھر اور فلسطینی فدائی کے ایک خود کش حملے اور فلسطینی عورت کے ایک نعرے کی مسافت پر ہے۔ جس دن یہ ہوتا ہے فلسطینیوں کا خون پانی کی طرح بہنے لگتا ہے۔ اس لیے فلسطین میں پاکستان ایک اصول پر اور ضمیر پر کھڑا ہے۔ اس مقام سے پسپائی کے بعد پاکستان اپنے گھر میں اس اصول پر کھڑا نہیں رہ سکتا۔ پاکستان کو کشمیریوں کی مزاحمت سے الگ کرنے کے لیے وہی کھیل برسوں سے جاری ہے جو مصر اور اُردن کے ساتھ کھیلا جا چکا ہے مگر پاکستان نے اس دبائو سے نکل کر چین کے ساتھ کھڑا ہونے کا فیصلہ کرکے اس دبائو کو مستقل طور پر بے اثر کردیا ہے۔