اطہر ہاشمی صاحب کے حوالے سے محبت کرنے والا ساتھی کے عنوان سے مضمون سے پہلے اپنے بچپن کی مکانیت اور اس کی اندرونی ترتیب پر بات ہوئی تھی، جس کو ہماری عمر کے لوگوں نے بہت پسند کیا تھا۔ اب اس وقت کی بیرونی کیفیت اور حالات پر بات ہو جائے کہ اس وقت دن کو دن اور رات کو رات سمجھا جاتا تھا، آج کی طرح نہیں کہ ہم نے رات کو دن اور دن کو رات بنا کر رکھ دیا اور ہم فطرت سے دور ہوتے جارہے ہیں۔ اس زمانے میں اتوار کے سوا کسی بھی دن دیر تک سونے کا تصور نہیں تھا، سوائے ان لوگوں کے جو ملوں اور فیکٹریوں میں شفٹوں میں ڈیوٹی کرتے تھے۔ ہمارا اسکول صبح کا تھا جو ساڑھے سات بجے لگتا تھا اس وقت سرکاری اسکول میں صبح لڑکیاں جاتی تھیں اور دوپہرکو لڑکے۔ پرائیویٹ اسکولوں میں اُلٹ سسٹم تھا ہم چونکہ چھٹی جماعت سے پرائیویٹ اسکول میں داخل ہوئے تھے اس لیے صبح کا اسکول تھا۔ گھر سے اسکول جاتے ہوئے راستے میں ایک جگہ پر ساٹھ ستر خاکروب بیٹھے ہوتے اور ہیڈ جمعدار ان سب کی اسی طرح حاضری لیتا جس طرح ہماری کلاس میں حاضری لگتی تھی۔
صبح 8بجے آٹھ دس خاکروب ہر گلی میں جھاڑو دینے آتے تھوڑے فاصلے پر ان کا سپروائزر ایک موٹا سا جمعدار اپنی سائیکل لیے کھڑا ہوتاجو خاکروب ذرا سی بھی سستی کا مظاہرہ کرتا وہ وہیں سے اسے ایک موٹی سی گالی بکتا تو وہ اور دیگر خاکروب چوکنا ہوجاتے۔ پھر دوبارہ شام چار بجے یہی ٹیم گلی کی صفائی کرنے کے لیے آتی یعنی اس وقت ایک گلی میں دن میں دو مرتبہ تقریباً بیس خاکروب آتے تھے اب جبکہ ہر گلی میں اس وقت سے دس گنا زیادہ آبادی بڑھ گئی ہے مہینوں گزر جاتے ہیں کسی سوئپر کی شکل تک دیکھنے کو نہیں ملتی یہی وجہ ہے کہ لیاقت آباد میں ہر چوڑی گلی میں کوڑے کے ڈھیر لگے نظر آتے ہیں اور پتلی گلی کی حالت تو اس سے بھی زیادہ تشویشناک ہے جب سے یہاں پر چھ چھ منزلہ کمرشل بنیادوں پر فلیٹس بننے شروع ہوئے ہیں اس نے بڑی خوفناک صورتحال پیدا کردی ہے فلیٹوں میں رہنے والے اپنے گھر کا کوڑا آنکھ بند کرکے پتلی گلی میں پھینکتے رہتے ہیں اس کوڑے کے ڈھیر نے گلیوں کی گٹر لائن بند کردی ہے جس کی وجہ سے جن کے گھر نیچے ہیں ان کے یہاں ہر وقت گندا پانی بھرا رہتا ہے اس کے لیے سرکار کی طرف سے یعنی یو سی کی طرف سے کوئی تعاون نہیں ملتا جب پرائیویٹ طور پر بھنگیوں سے بات کی جاتی ہے تو وہ ہزار اور دو ہزار روپے مانگتے ہیں وہ بھی کچھ دن کا سکون ہوتا ہے پھر نیچے گھر گندے پانی سے بھر جاتے ہیں اور دیگر گھروں کی بھی لائنیں متاثر ہوتی ہیں۔
اس خوفناک صورتحال میں ہمیں اپنے بچپن کی یعنی پہلے دو عشروں کی گلیاں یاد آجاتی ہیں جو ہر وقت صاف رہتی تھیں اور پتلی گلی بھی اتنی صاف رہتی تھیں کہ لوگ دو تین منزلہ مکان بناتے تو کرایہ داروں کے لیے پتلی گلی سے دروازہ رکھتے تھے۔ اب اس کا تصور ہی ختم ہو گیا ہے۔ پہلے جب سیوریج لائنیں نہیں پڑی تھیں تو ہر گھر میں بھنگی واش روم کی صفائی کے لیے آتے تھے بعض اوقات ان کے نخرے ہوتے اور وہ ایک طرح سے ہڑتال کردیتے اس کا متبادل یہ طریقہ اختیار کیا کہ لوگ کوئیں کھدوانے لگے اور واش روم کے فلش سسٹم کو اس کوئیں سے جوڑ دیتے اور پھر مہینوں وہ آرام سے گزارتے، جب وہ بھر جاتا تو پھر دوسرا کوواں کھدواتے۔ پھر لوگوں کے سائنسی ذہنوں نے ایک اور طریقہ اختیار کیا کہ بار بار کے کوئیں کھدوانے سے نجات مل گئی کہ کنواں اتنا گہرا کھدوایا جائے کہ پانی نکل آئے اور پھر اس کو بھی مزید کھودا جائے اور اس کو واش روم کے فلش سسٹم سے منسلک کردیا جائے اور مہینے پندرہ دن میں اس میں چونا ڈالتے رہیں تو وہ گٹر کبھی نہیں بھرے گا پھر تھوڑے عرصے کے بعد کے ایم سی کی طرف سے سیوریج لائنیں پڑ گئیں تو یہ سلسلہ بھی ختم ہو گیا۔
اب تھوڑی سی گفتگو اس وقت کے سیاسی ماحول کے حوالے سے ہو جائے 1947 سے 1970 تک پاکستان مختلف سیاسی بحرانوںکا شکار رہا ایوان اقتدار کے اندر کی محلاتی سازشوں نے ملک میں سیاسی استحکام نہ ہونے دیا جس پر بھارت کے ایک رہنما نے یہ بیان دیا کہ ’’پاکستان میں جتنے حکمران تبدیل ہوتے ہیں اتنی تو ہم دن بھر میں اپنی دھوتیاں تبدیل نہیں کرتے‘‘۔ ہمارے یہاں سے جواب دیا گیا کہ پاکستان میں ہر فرد حکمرانی کی صلاحیت رکھتا ہے۔ ایوب خان کے مارشل لا کے بعد ایک طرح کا سیاسی استحکام وجود میں آیا ان 23 برسوں میں بعض ایسے فیصلے بھی ہوئے جس نے ملک کے سیاسی مستقبل پر منفی اثرات ڈالے پہلا فیصلہ ملک کے دارالحکومت کی کراچی سے اسلام آباد منتقلی ہے اس سے کراچی کے مہاجر نوجوانوں میں احساس محرومی پیدا ہوا، اس فیصلے نے مشرقی پاکستان کے لوگوں کو بھی متاثر کیا کہ کراچی میں دارالحکومت ہونے کی وجہ سے ان کے مسائل کم وقت میں حل ہوجاتے نئی صورتحال میں انہیں ڈھاکا سے کراچی اور پھر کراچی سے اسلام آباد جانا پڑتا بہت سے بنگالیوں کو اپنی ملازمتوں سے ہاتھ دھونا پڑا دوسرا سب سے اہم سیاسی دھچکا فاطمہ جناح کی شکست تھی۔ پورے مشرقی پاکستان کے عوام اور مغربی پاکستان کے عوام کی اکثریت فاطمہ جناح کو چاہتی تھی اور پورے ملک میں ان کی سیاسی پوزیشن بھی بہت اچھی تھی لیکن ان کو اقتدار کی قوت سے زبردستی ہروا دیا گیا اس طرح کے فیصلوں نے مشرقی پاکستان کے لوگوں میں احساس محرومی اور بڑھا دیا شیخ مجیب جو فاطمہ جناح کی زبردست حمایت کررہا تھا اس نے اپنی الگ پارٹی بناکر ملک سے علٰیحدگی کے سفر کا آغاز کیا۔ 23برسوں کی سیاسی داستان اتنی طویل اور پیچیدہ ہے کہ اسے بیان کرنے کے لیے بہت وقت اور لکھنے کے لیے کئی صفحات چاہییں۔ 1965 کی جنگ نے ایوب خان کو ہیرو بنایا لیکن اعلان تاشقند نے ان کو ہیرو سے زیرو کریا اور یہیں سے ان کے زوال کا آغاز ہوا ان کے خلاف تحریک چلی اور پھر مارچ 1969 میں انہیں استعفا دینا پڑا۔ اس دور کی ایک خاص بات یہ تھی کہ اقتدار کے ایوانوں میں عدم استحکام تو رہا لیکن مارکیٹ میں اشیاء کی قیمتوں میں استحکام رہا برسوں اشیائے ضرورت کی قیمتیں ایک ہی سطح پر قائم رہیں مجھے اچھی طرح یاد ہے آٹا پونے سات آنے کلو راشن شاپ سے کئی سال تک ملتا رہا چینی ایک روپے پانچ آنے کلو کئی برس تک ملتی رہی پھر وہ ایک امن و سکون کا دور تھا یہ تھی ملک کے پہلے دو عشروں کی ایک ہلکی سی تصویر۔