پاکستانی سیاستدان جگت بازی تو بند کریں

283

پاکستانی سیاست میں جب تک بالغ نظری اور سنجیدگی کا عنصر غالب نہیں آئے گا مسائل جوں کے توں چلتے رہیں گے۔ سب سے بڑی خرابی الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے جگت بازی ہے۔ نہایت سنجیدہ مسئلے کو بھی جگت بازی کی نذر کر دیا جاتا ہے اور بسا اوقات نہایت معمولی نوعیت کے مسئلے کو سنجیدہ مسئلہ بنا کر سارا دن اس پر جگتیں لگائی جاتی ہیں۔ آج کل نواز شریف اور شہباز شریف کے حوالے سے یہ ڈرامے بازی ہو رہی ہے۔ بہت سنجیدگی سے خبر جاری کی جاتی ہے کہ اب حکومت نواز شریف کو پاکستان واپس لانے کے لیے سنجیدہ ہو گئی ہے۔ شہباز شریف ضمانتی تھے اس لیے ان کے خلاف کارروائی ہوگی۔ مشیر احتساب شہزاد اکبر نے نواز شریف کو مفرور قرار دیا اور کہا کہ سزا یافتہ شخص کا لندن کی سڑکوں پر گھومنا نظام انصاف کے منہ پر طمانچہ ہے۔ انہوں نے اس طمانچے کو ذرا دیر سے محسوس کیا۔ ایک سزا یافتہ شخص لندن میں پہلے ہی گھوم رہا ہے اس کا طمانچہ کب محسوس ہو گا۔ ایک سزا یافتہ دبئی میں بیٹھا ہے اس کا طمانچہ بھی محسوس کر لیں۔ جب مشیر احتساب نے لندن میں نواز شریف کے گھومنے کو طمانچہ قرار دیا تو رانا ثنا اللہ نے بھی جگت لگا دی کہ نواز شریف لندن میں حکومت کا علاج کر رہے ہیں۔ سابق وزیراعظم نے جو دوا دی وہ حکومت سے ہضم نہیں ہو رہی ہے۔ اپوزیشن کی اے پی سی ابھی ہوئی نہیں لیکن شیخ رشید کی ٹانگیں ابھی سے کانپ رہی ہیں۔ سندھ پیپلز پارٹی کے مولا بخش چانڈیو، مرتضیٰ وہاب اور سعید غنی بھی اسی قسم کے غیر سنجیدہ بیانات دے دیتے ہیں۔ پھر شیخ رشید اور فیاض چوہان اور دیگر وزرا کیوں پیچھے رہیں؟ لیکن ان پارٹیوں میں کوئی سمجھدار شخص ہو تو اس سلسلے کو رکوائے اس کے نتیجے میں سیاستدانوں کو غیر سنجیدہ اور چھچھورا سمجھا جاتا ہے اور فائدہ کسی اور کو ہوتا ہے۔اس پر جماعت اسلامی پاکستان کے نائب امیر میاں محمد اسلم کا تبصرہ بجا ہے کہ عوام ڈگڈگیاں بجا کر نعرے لگانے والوں کے فریب سے نکلیں۔ یہ سارا سلسلہ ڈگڈگی کا تو ہے۔