کمیٹی کی مدت بھی واضح ہونی چاہیے

220

وفاق اور صوبے کی مشترکہ کراچی کمیٹی نے اپنا کام شروع کر دیا ہے۔ پہلا اجلاس بھی ہو گیا ہے۔ کراچی میں وفاقی منصوبوں پر کام تیز کرنے کا فیصلہ کر لیا گیا۔ وفاقی وزیر منصوبہ بندی اسد عمر نے کہا کہ شہر میں بے انتہا مسائل ہیں۔ ان کے حل کے لیے سنجیدہ اقدامات کر رہے ہیں۔ ان میں ٹرانسپورٹ، واٹر، سیوریج، سالڈ ویسٹ، برساتی نالے اور سڑکوں کی تعمیر ترجیح ہے۔ وفاقی وزیر کے ساتھ ساتھ صوبائی وزیر ناصر حسین شاہ نے بھی گفتگو کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ پیر (آج) سے تجاوزات ہٹانے اور نالوں پر رہائش پذیر افراد کو متبادل جگہ دینے کا فیصلہ کر لیا گیا ہے۔ کیا یہ وہ بنیادی مسائل ہیں جن کی وجہ سے کراچی میں تباہی ہوئی ہے؟ اس حوالے سے کمیٹی وفاق صوبائی حکومت اور کراچی کے تمام اسٹیک ہولڈرز کو سوچنا ہوگا۔ نالوں کی صفائی نہیں ہوئی بلکہ ان پر تجاوزات قائم ہو گئیں۔ کچرا یعنی سالڈ ویسٹ ٹھکانے نہیں لگایا جا سکا جس کی وجہ سے پانی کی روانی میں رکاوٹ اور پانی کے ساتھ بہت سا کچرا گٹر اور نالوں میں چلا گیا۔ اس کی وجہ سے سڑکیں بھی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو گئیں۔ اور کئی برس کی عدم توجہ کی وجہ سے ٹرانسپورٹ کا نظام بھی تباہ ہو گیا لیکن یہ سب خرابیاں کیوں پیدا ہوئیں جب تک وفاق اور کمیٹی (اگر سنجیدہ اور مخلص ہے) ان اسباب کی نشاندہی نہیں کرے گی اور ان کا سدباب نہیں کرے گی یہ سب کچھ ہوتا رہے گا۔ یہ فیصلہ تو اچھا ہے کہ نالے پر بسے ہوئے لوگوں کو متبادل جگہ دی جائے گی۔ لیکن ان کو نالے پر کس نے بسایا۔ اور جو لوگ بسائے جا رہے تھے کیا انہیں نہیں معلوم تھا کہ وہ ایک نالے پر بسائے جا رہے ہیں؟ اس بات کا کسی کے تعلیم یافتہ، غریب اور چھوٹے طبقے کا ہونے سے کوئی تعلق نہیں۔ کوئی رہائش کا انتظام کر رہا ہو۔ لاکھوں روپے دے رہا ہو اور اسے پتا ہی نہ ہو کہ جس زمین پر وہ رہنے جا رہا ہے وہ نالا ہے یا غیر قانونی زمین لیکن پھر بھی اس کا احتمال ہے کہ انہیں دھوکے میں رکھا گیا ہو، اصل تو وہ لوگ ہیں جنہوں نے نالوں پر لوگوں کو بسایا۔ ان کے خلاف کمیٹی صوبائی حکومت یا متعلقہ ادارے کیا کارروائی کر رہے ہیں۔ یہ ٹھیک ہے کہ پہلا قدم اٹھا لیا گیا ہے اور تجاوزات کا خاتمہ شروع کر دیا گیا ہے لیکن اس کے ساتھ ہی جب تک تجاوزات قائم کروانے والوں کے خلاف کارروائی نہیں ہوگی اس بات کا خدشہ برقرار رہے گا کہ پھر تجاوزات قائم ہو جائیں گی۔ آج کل شناختی کارڈ اور نادرا کا نظام ہے۔ جو لوگ نالوں پر تجاوزات میں ملوث ہیں، خریدار سمیت، ان سب کے بارے میں معلومات نادرا کے پاس ہونی چاہییں کہ کہاں کہاں مقیم رہے تاکہ آئندہ وہ کہیں تجاوزات یا قبضے کی جگہ بیٹھ کر پھر متبادل رہائش کے لیے نہ کھڑے ہو جائیں۔ نالوں کی صفائی بنیادی مسئلہ ہے لیکن چند دنوں میں لوگ اس کو بھول جائیں گے کیونکہ بارش ختم ہو جائے گی۔ جو مستقل مسئلہ ہے وہ صاف پانی اور سیوریج ہے۔ کمیٹی کا امتحان ان دو مسائل کے حل میں ہے۔ لیکن یہ کام بھی کمیٹی کیوں کرے۔ کمیٹی بڑا کام کرے۔ نالوں کی صفائی یقینی بنائے اور کراچی میں وفاق کے منصوبے مکمل کروائے۔ کراچی کی میٹرو ٹرین کے انتظار میں لوگ تھک گئے ہیں۔ اسے جلد مکمل کرایا جائے۔ شہر میں جہاں جہاں پانی کھڑا ہوتا ہے ان مقامات کی نشاندہی ہو چکی ہے۔ بارش کے اگلے مرحلے سے قبل ان مقامات کا مسئلہ تو حل کرا لیا جائے۔ نیپا کا پل دریا بنا ہوتا ہے یہاں کا گٹر اور اس تک پانی کی رسائی کا نظام ٹھیک کر لیا جائے۔ اگر سڑک کی ایک اور تہہ بچھا کر کچھ اونچا کرنا ہے تو وہ بھی کر لیا جائے۔ اس طرح جن علاقوں میں پانی داخل ہوا ہے گھر بھی متاثر ہوئے ہیں ان کا جائزہ لے کر وہاں سے پانی کی نکاسی اور آئندہ روانی کے ساتھ گزر جانے کو یقینی بنایا جائے۔ لیکن ایک بار پھر توجہ دلانے کی ضرورت ہے کہ روزمرہ کے کام کرنا کمیٹی کا کام نہیں ہونا چاہیے یہ کام نئی بلدیاتی قیادت کو کرنا ہے۔ یہ کام بھی لگے ہاتھوں کر لیا جائے کہ کون سا محکمہ بلدیہ کراچی کے پاس رہنا چاہیے اور کون سا حکومت کے پاس تاکہ جھگڑا ہی ختم ہو جائے۔ ابھی تو پہلا اجلاس ہوا ہے لیکن اس مرتبہ دو تین چیزوں پر عوام کو اور سیاسی جماعتوں کو نظر رکھنا ہوگی۔ ایک یہ کہ کل تک فنڈز نہیں تھے۔ اب فنڈز کہاں سے آئیں گے۔ اگر وفاق نے روک رکھے تھے تو صریح بدنیتی ثابت ہو جائے گی۔ اگر صوبے نے روکے تھے تو اس کی بد دیانتی ثابت ہوگی۔ یہ بات بھی بڑی عجیب ہے کہ بلدیات کی مدت ختم ہونے سے دس روز قبل کراچی کے بلدیاتی مسائل پر کمیٹی قائم کی گئی ہے جبکہ اس وقت ایڈمنسٹریٹر کے تقرر اور انتخابات کا اعلان ہونا چاہیے تھالہٰذا کمیٹی کی حدود اور مدت بھی واضح ہونی چاہیے۔ یہ کمیٹی ساتویں ضلع کے بارے میں بھی بتائے کہ کس یو سی کس صوبائی حلقے میں یہ تجویز سامنے لائی گئی کہاں عوامی رائے مانگی گئی، کہاں کہاں بے ضابطگی ہوئی۔ ضلع بنانا چاہیے لیکن اس کا کوئی طریقۂ کار بھی تو ہونا چاہیے۔