ایک صفحہ یا اپنا اپنا صفحہ

229

صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے تیسرے پارلیمانی سال کے آغاز پر پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کیا۔صدر کا یہ خطاب ہر لحاظ سے روایتی تھا۔ ماضی کے ہر صدر کے ہر سالانہ خطاب کی طرح یہ خطاب بھی سال بھر کی بیان کردہ باتوں کا اعادہ تھا۔ وہ سب باتیں اور دعوے جو سال بھر وزراء اور حکومتی ترجمان کرتے ہیں صدر کے تقریر نویس انہی دعوئوں اور باتوں کو مربوط کرکے ایک تقریر کی شکل دیتے ہیں۔ انہیں اپنی تاریخی کامیابیوں کا جامہ پہنا کر پیش کرتے ہیں۔ یہ بھی ایک روایت ہے کہ صدر کے خطاب کے موقع پر اپوزیشن جماعتیں جم کر مخالفت، شور وہنگامہ کرتی ہیں۔ اس روایت کا آغاز غلام اسحاق خان کے دور میں پیپلزپارٹی کے ارکان پارلیمنٹ نے کیا، جب ایوان میں میاں نوازشریف بطور وزیر اعظم براجمان تھے اور بے نظیر بھٹو حزب اختلاف کی قیادت کر رہی تھیں۔ یہ نیا نظام پیپلز پارٹی کی حکومت برطرف کرنے کے نتیجے میں قائم ہوا تھا اور پیپلزپارٹی غلام اسحاق خان کے اس اقدام کے باعث ایک زخم خوردہ جماعت بن چکی تھی۔ غلام اسحاق خان ایوان میں خطاب کے لیے آئے تو ’’گو بابا گو‘‘ کے نعروں کے شور میں کان پڑی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی۔ مارشل لا کے بعد متعارف ہونے والی جمہوریت میں اپوزیشن کا ایوان میں اس طرح کا رویہ عوام کے لیے قطعی اجنبی اور نیا تھا یہ الگ بات کہ اب لوگ اس رویے کے عادی ہو چکے ہیں۔ غلام اسحاق خان مضبوط اعصاب کے مالک تھے وہ اپنی طویل تقریر پڑھتے چلے گئے اپوزیشن گو بابا گو کے نعرے بلند کرتی چلی گئی یہاں تک کہ تقریر مکمل ہوئی اور ایوان کی کارروائی کے خاتمے کا اعلان کر دیا گیا۔ اس کے بعد جو بھی صدر آیا اسے چین سے سالانہ خطاب کرنے کا موقع نہ ملا۔
اپوزیشن نے صدر کو ریاست اور مملکت کے آئینی سربراہ کے بجائے حکومت کے حصے اور شراکت دار کے طور پر احتجاج کرنا اپنا حق سمجھا۔ فاروق لغاری کے دور میں تو مسلم لیگ ن کی ایک رکن اسمبلی تہمینہ دولتانہ نے ان کے سامنے چوڑیاں اور چادر پھینک کر احتجاج کو نیا رنگ وآہنگ دیا۔ ممنون حسین جیسے مرنجان مرنج اور جنرل مشرف جیسے دبنگ صدور بھی سالانہ خطاب کے موقع پر اپوزیشن کے نعروں سے بچ نہ پائے۔ موجودہ صدر عارف علوی جس منقسم اور کشیدہ ماحول میں سامنے آئے ہیں اس کا فطری تقاضا یہی تھا کہ انہیں بھی سکون سے خطاب کا موقع نہ ملتا سو وہ بھی یہ احتجاج بھگت رہے ہیں۔
نجانے انہیں کس بنا پر امید تھی کہ اس بار حالات مختلف ہوں گے اور اپوزیشن سکون سے ان کا خطاب سنے گی؟ عین ممکن ہے کہ اسپیکر کی محنت کا اس میں دخل ہو۔ ویسے ان کی امید کچھ غلط بھی نہیں تھی کیونکہ اس بار اپوزیشن نے انہیں اس حد تک رعایت دی کہ ایوان میں نعرے بازی کرنے کے بعد ایوان سے واک آئوٹ کرکے صدر مملکت کو اپنا خطاب سکون کے ساتھ مکمل کرنے کا موقع دیا۔ اپوزیشن کی بینچ خالی بھی رہیں اور ایوان شور وغل سے بھی محفوظ رہا۔ صدر ایوان کے اندر اپنی سناتے رہے تو اپوزیشن ایوان سے باہر اپنے دل کے پھپھولے پھوڑتی رہی۔
صدر کے خطاب میں کشمیر سے فلسطین اور چین سے سعودی عرب تک بہت کچھ تھا۔ انہوں نے اندرونی محاذ پر حکومت کی کامیابیاں گنوائیں۔ کرپشن پر سمجھوتا نہ کرنے کے موقف کو دہرایا۔ کورونا کے باعث چار چاند لگنے سے محروم رہ جانے والی معیشت کا ذکر کیا۔ پاکستان کے مستقبل اور پوٹینشل اور کامیابیوں کی بات کی۔ زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافے اور اس کے معیشت پر پڑنے والے اثرات کا ذکر کیا۔ یہ سب کچھ روایتی طور پر صدر کے خطاب کا حصہ ہوتا ہے۔ صدر اس موقع پر حکومت کو حالات بہتر کرنے کا مشورہ تو دے سکتا ہے مگر حکومت کے کسی قدم پر تنقید نہیں کر سکتا۔ اپوزیشن نے صدر کے خطاب کے موقع پر ایوان سے باہر اپنی مجلس سجائی اور اپوزیشن راہنمائوں کا کہنا تھا کہ صدر اپنے عہدے کا آئینی جواز کھو چکے ہیں عوام احتجاج کررہے ہیں اور حکومتی لوگ ڈیسک بجارہے ہیں۔ رات کی تاریکی میں اجلاس بلانے کی کیا ضرورت تھی۔ اپوزیشن کی تنقید سن کر اندازہ ہوتا ہے کہ صدر کا خطاب جہاں رسم نبھانے کی ایک کوشش تھی وہیں اپوزیشن نے سرگرمی دکھا کر اپنے حصے کی رسم ادا کرنے کی کوشش کی۔ رسوم کی اس ادائیگی میں ایک قدر مشترک ’’ایک صفحے‘‘ کا ذکر تھا۔ ایک صفحے کا ذکر کرنا جہاں صدر مملکت نہیں بھولے وہیں اپوزیشن نے بھی ایک صفحے کی اصطلاح کو فراموش نہیں کیا۔ یہ دونوں ملا کر ایک صفحہ نہیں بنا بلکہ دو صفحے ہی رہے۔ صدر کا اپنا صفحہ رہا تو اپوزیشن اپنا صفحہ لیے وضاحتیں کرتی رہی۔ صدر نے اپنے خطاب میں کہا کہ فوج، عدلیہ، حکومت اور میڈیا ایک صفحے پر ہیں۔ موجودہ حالات میں صدر کی یہ بات دل کو لگتی ہے کیونکہ صدر نے جن عناصر اور زاویوں کا تذکرہ کیا ان میں صرف اپوزیشن کی کمی ہے۔ فوج، عدلیہ، حکومت ایک صفحے پر تو تھے ہی میڈیا بھی چار وناچار اسی صفحے پر آچکا ہے۔ اس کے برعکس اپوزیشن کا کہنا تھا کہ اپوزیشن کی تمام جماعتیں ایک صفحے پر ہیں۔ صدر کی بات میں تو وزن ہے مگر اپوزیشن کا ایک صفحہ کہیں دکھائی نہیں دیتا اگر صفحہ نظر آتا ہے تو پوری اپوزیشن اس میں موجود نہیں ہوتی۔ البتہ یہ ضرور ہے کہ حکومت اور اپوزیشن کے اپنے اپنے صفحے ہیں واقفان حال کہتے ہیں اپوزیشن بھی اسی صفحے کا حصہ ہے فرق صرف یہ ہے کہ سفید روشنائی سے لکھا گیا اپوزیشن کا نام اس صفحے پر کہیں لکھا دکھائی نہیں دے رہا۔