اور اب ماڈرن سٹی کا خواب

234

وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علیشاہ نے یہ کہہ کر گویا ہری جھنڈی دکھا دی ہے کہ کراچی کو جدید شہر بنانے کے لیے 17 کھرب روپے یا 10 ارب ڈالر درکار ہیں اور یہ بھی کہہ دیا کہ سندھ اور وفاق کے پاس کراچی کو ماڈرن سٹی بنانے کے لیے وسائل نہیں ہیں۔ وزیراعلیٰ سندھ نے زبردست بات کہی کہ کراچی کے مسائل بڑھ نہیں رہے کم ہورہے ہیں اور اب پانی چار گھنٹوں میں نکل جاتا ہے لیکن جس روز کے اخبار یعنی پیر کو ان کابیان شائع ہوا ہے اس روز کے تمام ہی اخباروں میں کراچی، حیدرآباد اور دیگر شہروں میں بارش کے تین دن بعد بھی پانی کھڑا ہونے کی خبریں شائع ہوئی ہیں۔ لوگوں کے گھروں سے پیر کی شام تک پانی نہیں نکل سکا تھا۔ لیکن وزیراعلیٰ سندھ کا بیان یہاں یہ بتا رہا ہے کہ سندھ حکومت اب بھی اسی موقف پر قائم ہے کہ وسائل نہیں ہیں۔ میئر کراچی کہتے رہے کہ اختیارات اور وسائل نہیں ہیں۔ وفاق کہتا رہا کہ کراچی پر انتظامی کنٹرول نہیں ہے۔ اب خدا خدا کرکے یہ کنٹرول آگیا ہے اور جادو نے اثر دکھانا شروع کردیا ہے یعنی فنڈز کے بغیر پانچ سال گزارنے والی بلدیہ کی مشینری سڑکوں پر نکل آئی ہے۔ کسی اخبار نے متاثرہ علاقوں کے بارے میں تفصیل سے نہیں بتایا لیکن بلدیہ کا عملہ پورے شہر میں نظر آیا۔ یقیناً کہیں سے فنڈز بھی آگئے ہوںگے۔ شہر میں فوری طور پر کام ہوتا بھی نظر آنے لگا ہے۔ جہاں جس کا کنٹرول ہے وہاں مشینری پر اس کا جھنڈا لگا ہوا ہے۔ لیکن کام شروع ہوگیا ہے۔ پیر کے روز بھی بیشتر مقامات پر وہی کام ہونا نظر آیا جس کے لیے وسائل کی نہیں آمادگی اور خلوص کی ضرورت تھی۔ اب ایک دوسرے کی ضد اور کراچی پر کنٹرول کی جنگ کے سبب یہ ساری مشینری اور عملہ میدان میں آگیا ہے۔ وزیراعلیٰ نے جو زبردست نکتہ نکالا ہے کہ کراچی کو ماڈرن سٹی بنانے کے لیے 15 ارب ڈالر کی ضرورت ہے تو وہ رقم کس سے حاصل کرنا چاہیںگے۔ وفاق تو پانچ ارب روپے نہیں دے رہا 17 کھرب کہاں سے دے گا۔ یہ کراچی کو عالمی بینک کے کنٹرول میں دینے کے منصوبے کا حضہ تو نہیں۔ کراچی میگا پروجیکٹ کے لیے اربوں روپے قرض لے کر ساہو کار کی شرائط تسلیم کرلی جائیںگی۔ کیماڑی ضلع بھی نہایت اہمیت کا حامل ہے۔ اس ضلع میں بندر گاہ بھی ہے لہٰذا پاک بحریہ کو اس ضلع کے بارے میں اعتماد میں لیا جانا بھی ضروری ہے آنے والے دنوں میں سی پیک کی وجہ سے کراچی بندر گاہ کی اہمیت بھی بڑھ جائے گی۔ ایسے میں اس ضلع میں کس کی حکومت ہوگی اور کس کا کنٹرول اس پر بھی نظر رکھنے کی ضرورت ہوگی۔ ماڈرن سٹی بنانے کیلیے بھی وہی چیز درکار ہوگی جسے وسائل نہیں کہتے بلکہ اس کے لیے مخلص اور ایماندار قیادت ہی درکار ہوگی۔ اب جبکہ وفاق صوبے اور بلدیہ کے نمائندوں نے کمیٹی بنالی ہے تو بہت آگے کے خواب دکھانے کے بجائے بنیادی مسائل کے حل پر توجہ دی جائے۔لندن، پیرس، ایشین ٹائیگر وغیرہ کے خواب تو پہلے بھی دکھائے جارہے ہیں ۔ اب ماڈرن سٹی کا خواب دکھا کر کیا چاہتے ہیں۔