حکومت کی دو سالہ کارکردگی

371

موجودہ حکومت کی دوسالہ مدت کی تکمیل پر ایک طرف پچھلے تین چار روز سے مختلف وفاقی وزراء باری باری اپنے اپنے محکموں کی کارکردگی رپورٹ میڈیا کے توسط سے عوام کے سامنے پیش کررہے ہیں تو دوسری جانب وفاقی وزیر اطلاعات ونشریات شبلی فراز نے وفاقی حکومت کی دوسالہ کارکردگی پرمبنی رپورٹ وزیر اعظم عمران خان کو پیش کی ہے جب کہ پارلیمنٹ کی دوسالہ مدت کی تکمیل پر صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کے دوران بھی موجودہ حکومت کی دوسالہ کارکردگی پر نہ صرف روشنی ڈالی ہے بلکہ اس کی تعریف بھی کی ہے۔ وفاقی وزیر منصوبہ بندی وترقیات اسد عمر، مشیر خزانہ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ، وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور مشیر حماد اظہر اور ڈاکٹر ثانیہ نشتر نے ایک مشترکہ پریس کانفرنس میں دعویٰ کیا ہے پاکستان اقتصادی لحاظ سے ٹیک آف کی پوزیشن میں آ گیا ہے، پچھلے دوسال میں پانچ ہزار ارب روپے کے بیرونی قرضے واپس کیے گئے ہیں۔ خارجہ محاذ پر کشمیر کے مسئلے کو اُجاگر کیا گیا ہے، سلامتی کونسل کے علاوہ او آئی سی کے رابطہ گروپوں کے متعدد اجلاسوں میں کشمیرکا مسئلہ زیر بحث آ چکا ہے۔ وفاقی وزراء مراد سعید، فواد چودھری، عمر ایوب خان اور معاون خصوصی برائے پٹرولیم ندیم بابر نے ایک مشترکہ نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ این ایچ اے کا سالانہ ریونیو 53ارب سے بڑھ کر 103ارب روپے تک پہنچ گیا ہے، سادگی مہم کے دوران 75کروڑ روپے کی بچت کی گئی ہے، پاکستان ماہانہ 250 وینٹی لیٹر بنا رہا ہے جب کہ اس تعداد کو 700تک بڑھانے کا ہدف مقرر کیا گیا ہے، بجلی کی پیداوار میں پندرہ ونڈ منصوبوں سے 800 میگاواٹ بجلی پیدا کی جارہی ہے جب کہ دو سال کے دوران بجلی کی مجموعی پیداوار میں 5500میگاواٹ کا اضافہ کیا گیا ہے۔ پٹرولیم کے شعبے میں 26نئی ڈسکوریز کے علاوہ دس نئے بلاکس تلاش کیے گئے ہیں جب کہ یکم ستمبر سے ملک بھر میں یورو5 کی ترسیل کے ذریعے ماحول اور انجن دوست پٹرول دستیاب ہوگا۔ اسی طرح صدر مملکت نے بھی اپنے خطاب میں حکومتی کارکردگی پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا ہے کہ کرنٹ اکائونٹ خسارہ 20ارب ڈالر سے کم ہوکر تین ارب ڈالر رہ گیا ہے۔ زرمبادلہ کے ذخائر 8.5ارب سے بڑھ کر 12.5ارب ڈالر تک پہنچ گئے ہیں۔ ترسیلات زر 20ارب سے بڑھ کر 23ارب ڈالر ہوگئے ہیں۔ ٹیکس محصولات میں مقررہ ہدف سے 3.3سے زائد اضافہ ہوا ہے۔
دوسری جانب ان حکومتی دعوئوں اور اعلانات کے برعکس اپوزیشن کی تمام جماعتوں بالخصوص مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی، جماعت اسلامی، اے این پی اور جمعیت (ف) نے حکومتی کارکردگی پر تنقید کرتے ہوئے موجودہ حکومت کو اندرونی اور بیرونی تمام محاذوں پر ناکام قرار دیا ہے۔ اپوزیشن جماعتوں نے میڈیا کی حالت پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ملک میں اظہار رائے کی آزادی نہیں ہے اور صحافیوں کو ملازمتوں سے محروم کیا جارہا ہے۔ انہوں نے حکومت پر الزام لگایا کہ وہ نیب کو پولی ٹیکل انجینئرنگ اور مخالفین کو نشانہ بنانے کے لیے استعمال کررہی ہے۔ اپوزیشن کا دعویٰ ہے کہ موجودہ حکومت کے دو سال میں جی ڈی پی کی شرح نمو 2018 میں 5.8 فی صد سے 2020 میں 0.45 فی صد ہو گئی ہے جس نے لاکھوں افراد کو بے روزگار کردیا ہے اور بہت سے لوگوں کو غربت کی لکیر سے نیچے دھکیل دیاہے۔ چینی، گندم، پھلوں، سبزیوں اور دوائیوں کی قیمتوں میں تقریباً دگنا اضافہ ہوا ہے جب کہ فی کس آمدنی میں تیزی سے کمی واقع ہوئی ہے۔ حکومتی دعوئوں کے برعکس کشمیر کے ایشو پر بھی عالمی تعاون تو ایک طرف دوست مسلمان ممالک کی جانب سے بھی سرد مہری کا واضح مظاہرہ دیکھنے میں آرہا ہے جس سے حکومت کی خارجہ محاذ پر ناکامی کا اندازہ باآسانی لگایا جاسکتا ہے۔ ری اسٹرکچرنگ اور اصلاحات کے نام پر ملکی اداروں کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا گیا ہے، قومی فضائی کمپنی کے بارے میں ہوابازی کے وزیر کی جانب سے جو بیان دیا گیا اس سے پی آئی اے کو سوبلین روپے کا نقصان پہنچا ہے۔ اسی طرح وزراء، مشیروں اور معاونین خصوصی کے درمیان مربوط رابطے اور ہم آہنگی کے فقدان نیز بعض وزراء کی جانب سے ایک دوسرے کے محکمے میں مداخلت اور اس حوالے سے پبلک فورمز پر تبادلہ خیال سے بھی حکومت کو کئی مواقع پر مشکلات اور وضاحتوں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ اس امر میں شاید کوئی دو آراء نہیں ہوں گی کہ موجودہ حکومت جب برسراقتدار آئی تھی تو اس نے اپنے خوشنما اور غیر حقیقی اعلانات کے ذریعے قوم کی خواہشات اور امنگوں کو اس انتہا پر پہنچا دیا تھا جو بطور اپوزیشن تو کسی جماعت کو زیب دیتی ہے لیکن ایک برسراقتدار جماعت کو ہر قدم سوچ سمجھ کر خوب پھونک پھونک کر اٹھانا پڑتا ہے لیکن اس حوالے سے پی ٹی آئی کی قیادت تاحال اپوزیشن کے روایتی خول سے نکلنے کے لیے تیار نہیں ہے جس سے جہاں پارٹی اور حکومت کا نقصان ہو رہا ہے وہاں فیصلوں میں بار بار تبدیلی اور عملی کام سے زیادہ کاسمیٹکس امور پر توجہ کی وجہ سے عام لوگوں کی زندگیاں بھی روز بروز اجیرن بنتی جارہی ہیں۔ حکومت نے اپنی اننگ کا آغاز 100 دنوں کے منصوبے سے کیا تھا، پھر ایک سال اور اب دو سال پورے ہوچکے ہیں لیکن حکومت ان دوسال میں اپنے کسی بڑے وعدے اور اعلان کو عملی جامہ نہیں پہنا سکی ہے جن میں ایک کروڑ نوکریاں اور پچاس لاکھ گھروں کے علاوہ سستے اور فوری انصاف کی فراہمی قابل ذکر ہیں۔ یہاں اس تلخ حقیقت کا اظہار بھی بے موقع نہیں ہوگا کہ حکومت اور اپوزیشن جو بظاہر تو ایک دوسرے کی دشمن نظر آتی ہیں لیکن جب بات مشترکہ مفادات کی ہو تو پھر انہیں ایک ہونے میں دیر نہیں لگتی لہٰذا اداروں کی ناقص کارکردگی کا خمیازہ بیچارے عوام کو بھگتنا پڑتا ہے جن کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔