عدلِ فاروقی

347

ہم سیرت وتاریخ کی کتب سے ’’عدلِ فاروقی‘‘ کی چند مثالیں بیان کر رہے ہیں:
عطا بن ابی رباح بیان کرتے ہیں : جب حج کا زمانہ قریب آتا تو سیدنا عمر اپنے تمام گورنروں کو مکہ معظمہ میں جمع ہونے کا حکم دیتے، پس جب وہ جمع ہوجاتے تو آپ لوگوں کے سامنے خطبہ ارشاد فرماتے: ’’اے لوگو! میں نے اپنے عاملوں کو تم پر اس لیے مقرر نہیں کیا کہ وہ تمہاری کھالیں اُتاریں اور تمہارا مال چھینیں، میں نے اُن کا تقرر اس لیے کیا ہے تاکہ وہ تمہارے اختلافات ختم کریں اور تمہارے درمیان مالِ غنیمت کو تقسیم کریں، اگر کسی شخص کے ساتھ میرے کسی عامل نے ناانصافی کی ہے تووہ کھڑے ہوکر اپنی شکایت بیان کرے، یہ سن کر ایک شخص کھڑا ہوا اورکہا: امیر المومنین! آپ کے فلاں عامل نے مجھے سو کوڑے مارے ہیں، سیدنا عمر نے اُسے طلب کیا اور پوچھا: کس معاملے میں اِسے سوکوڑے لگائے ہیں، وہ کوئی معقول وجہ بیان نہ کرسکا، سیدنا عمر نے اُس شخص کو دُرَّہ حوالے کیا اور فرمایا: اُٹھو اور اِسے اسی طرح سو دُرّے لگائو جیسے اس نے تجھے لگائے تھے، یہ ماجرا دیکھ کر سیدنا عمرو بن عاص کھڑے ہوئے اور عرض کی: امیر المومنین! اگر آپ نے ایسا کیا تو پھر لوگ بڑی کثرت کے ساتھ آپ کے پاس دعوے لائیں گے، یہ ایک شِعار بن جائے گا اور آپ کے بعد بھی یہی سنت جاری رہے گی، سیدنا عمر نے فرمایا: فقط میں ہی وہ شخص نہیں جو مظلوم سے بدلہ لینے کا کہہ رہا ہوں، بلاشبہ میں نے رسول اللہؐ کو دیکھا ہے: آپؐ اپنی ذات کو بھی قصاص کے لیے پیش فرماتے تھے، سیدنا عمرو بن عاص نے کہا: ہمیں کچھ وقت دیجیے تاکہ ہم اِسے راضی کرلیں، چنانچہ سیدنا عمرو بن عاص نے اُس شخص کو دو سو دینار کے عوض راضی کیا، (کنزالعمال)‘‘۔
سیدنا انس بن مالک بیان کرتے ہیں: مصر کا ایک شخص سیدنا عمر کے پاس آیا اور عرض کی: امیر المومنین! میرے ساتھ ظلم ہوا ہے، میں آپ کے پاس انصاف لینے آیا ہوں، آپ نے فرمایا: تمہارے ساتھ کیا ظلم ہوا ہے، اُس نے کہا: میں نے مصر کے گورنر عمرو بن عاص کے بیٹے کے ساتھ دوڑ کا مقابلہ کیا اور میں اُس سے آگے نکل گیا، یہ بات اُسے ناگوار گزری اور اُس نے مجھے یہ کہتے ہوئے کوڑے مارنا شروع کردیے: ’’ہم بڑے لوگ ہیں اور عزت دار لوگوں کی اولاد ہیں‘‘، یہ سن کر سیدنا عمر نے اُسی وقت سیدنا عمر و بن عاص کو پیغام بھجوایا اور بیٹے سمیت فوری طور پر مدینہ طیبہ حاضر ہونے کا حکم دیا، جب سیدنا عمرو بن عاص اپنے بیٹے کے ہمراہ مدینہ طیبہ پہنچے تو آپ نے اس مصری باشندے کو طلب کیا، وہ حاضر ہوا تو آپ نے اُسے کوڑا دے کر فرمایا: اس کو مارو، وہ گورنر کے بیٹے کو کوڑے مارنے لگا، سیدنا عمر اس دوران فرماتے تھے: ’’مار اس عزت دار کو‘‘۔ سیدنا انس بیان کرتے ہیں: وہ مصری اس قدر برے طریقے سے پیٹنے لگا کہ ہم اس کے رکنے کی تمنا کرنے لگے، پس جب وہ رک گیا تو سیدنا عمر نے گورنر عمرو بن عاص کے متعلق حکم دیا کہ ان کے گنج پر بھی کوڑے مار، اس نے کہا: امیر المومنین! مجھے انہوں نے نہیں، ان کے بیٹے نے مارا ہے اور میں اس سے اپنا بدلہ لے چکا ہوں۔ اس کے بعد سیدنا عمر نے عمرو بن عاص کو مخاطَب کرکے فرمایا: ’’ماؤں نے اپنے بچوں کو آزاد جنا ہے، تم نے کب سے اُنہیں اپنا غلام سمجھنا شروع کردیا ہے‘‘، سیدنا عمرو بن عاص نے عرض کی: امیر المومنین! نہ مجھے اس واقعے کا کوئی علم ہے اور نہ یہ میرے پاس شکایت لایا، (کنزالعمال)‘‘۔
’’عبداللہ بن عباس بیان کرتے ہیں: ایک باندی نے سیدنا عمر کی خدمت میں اپنے مالک کی شکایت کی اور کہا: میرے مالک نے مجھ پر بدکاری کا الزام لگایا ہے اور مجھے آگ پر بٹھایا، جس کی وجہ سے میری شرمگاہ جل گئی، سیدنا عمر نے اُس کے مالک کو طلب کیا اور فرمایا: ’’تجھے اللہ جیسا عذاب دیتے ہوئے حیا نہیں آئی، کیا تو نے اسے بدکاری کرتے ہوئے دیکھا تھا‘‘، اُس نے کہا: نہیں، فرمایا: اس نے تیرے سامنے خود اقرار کیا تھا، اُس نے کہا: نہیں، سیدنا عمر نے فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے قبضہ و قدرت میں میری جان ہے، اگر میں نے رسول اللہؐ کا یہ فرمان نہ سنا ہو تاکہ بیٹے کے قصاص میں باپ کو اور غلام کے قصاص میں آقا کو قتل نہ کیا جائے، تو میں ضرور تجھ سے اس کا بدلہ لیتا، پھر آپ نے اُس شخص کو سو کوڑے لگوائے اور کنیز سے کہا: جاؤ تم اللہ کے لیے آزاد ہو، اب تم اللہ اور اس کے رسول کی باندی ہو، میں گواہی دیتا ہوں کہ میں نے رسول اللہؐ سنا ہے: ’’جس شخص کو آگ میں جلایا گیا یا جس کی صورت بگاڑی گئی تو وہ آزاد ہے اور وہ اللہ اور اس کے رسول کا آزاد کردہ غلام ہے، (المعجم الاوسط)‘‘۔
’’غسان کے حکمران جبلّہ بن الایہم کا واقعہ عدل فاروقی کی عظیم مثال ہے، اس سے واضح ہوجاتا ہے کہ آپ کے نزدیک آقا وغلام، بادشاہ و گدا میں فرق نہ تھا۔ جبلّہ نے طواف کے دوران ایک بَدو کو تھپڑ مارا، وہ امیرالمومنین سے انصاف طلب کرنے پہنچ گیا، آپ نے فرمایا: جبلّہ کو پکڑ کر بَدو کے حوالے کیا جائے، وہ اس کے منہ پر اسی طرح تھپڑ مارے جس طرح اس نے اسے مارا ہے، جبلہ نے کہا: میں ایک بدو کے آگے اپنا چہرہ پیش کروں، سیدنا عمر نے فرمایا: اسلام نے اُسے اور تجھے ملادیا ہے، تجھے اگر اُس پر کوئی فضیلت ہے تو صرف تقوے کی بنا پر ہے، لہٰذا یا تو اسے راضی کرو، ورنہ اپنے آپ کو قصاص کے لیے پیش کرو، اُس نے کہا: پھر میں نصرانی ہوجاؤں گا، آپ نے فرمایا: اگر تو نصرانی ہوگیا تو میں ارتداد کے جرم میں تیری گردن اُتار دوں گا، پس جب اُس نے سیدنا عمر کی سختی دیکھی تو کہا: مجھے آج کی رات غور وفکر کی مہلت دیدیں، پھر وہ رات کے اندھیرے میں فرار ہوگیا، (المنتظم فی تاریخ الملوک والامم)‘‘۔
’’ابو جعفر بیان کرتے ہیں: سیدنا عمر ایک مرتبہ مدینہ طیبہ کی ایک گلی سے گزر رہے تھے کہ راستے میں اُن کی سیدنا علی سے ملاقات ہوگئی، ان کے ساتھ حضراتِ حسنین کریمین بھی تھے، سیدنا علی نے اُنہیں سلام کیا اور اُن کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے لیا، حضراتِ حسنین کریمین سیدنا عمر کے دائیں بائیں کھڑے ہوگئے، اِس دوران سیدنا عمر پر گریہ طاری ہوگیا، اکثر آپ پر گریہ طاری ہوجاتا تھا، سیدنا علی نے فرمایا: امیر المومنین! کیا بات ہے، فرمایا: مجھ سے زیادہ رونے کا سزاوار کون ہوسکتا ہے، علی! مجھے اُمت کے معاملات کا والی بنادیا گیا ہے، میں لوگوں کے فیصلے کرتا ہوں مگر نہیں جانتا کہ عنداللہ میرا مقام کیا ہے، سیدنا علی نے کہا: واللہ! آپ ہر کام میں عدل کرتے ہیں، مگر سیدنا عمر روتے رہے، پھر سیدنا حسن نے ان سے گفتگو کی اور ان کی ولایت اور عدل کا ذکر کیا، سیدنا عمر پھر بھی روتے رہے، پھرجب سیدنا حسین نے بھی آپ کے عدل کا ذکر کیا تو انہوں نے رونا موقوف کردیا اور فرمایا: میرے بھتیجو! تم شہادت دیتے ہوکہ عمر عادل ہے، اُنہوں نے اپنے والد کی طرف دیکھا، سیدنا علی نے فرمایا: تم دونوں گواہی دو اور میں بھی تمہارے ساتھ اس بات کا گواہ ہوں کہ عمر عادل ہیں، (اِزَالَۃُ الْخِفَاء عَنْ خِلَافَۃِ الْخُلَفَاء)‘‘۔
عبید بن عمیر بیان کرتے ہیں: ایک مرتبہ سیدنا عمر کہیں جارہے تھے کہ اُن کی نظر ایک شخص پر پڑی جو ایک عورت سے باتیں کررہا تھا، سیدنا عمر نے اُسے دُرّہ لگایا، اُس نے کہا: امیر المومنین! یہ عورت میری بیوی ہے، آپ نے فرمایا: پھر راستے میں اپنی بیوی کے ساتھ کھڑے ہوکرکیوں گفتگو کررہے ہو، مسلمانوں کو بدگمانی میں مبتلا کر رہے ہو، اُس نے کہا: ہم مسافر ہیں، مدینۂ طیبہ میں ابھی داخل ہوئے ہیں اور اپنے لیے ٹھکانا تلاش کر رہے ہیں، سیدنا عمر نے اپنا دُرّہ اُس کے حوالے کیا اور فرمایا: مجھ سے قصاص لو، اُس نے کہا: امیر المومنین! یہ آپ کا حق ہے، آپ نے پھر اُس کہا: مجھ سے قصاص لے، اُس نے کہا کہ یہ آپ کا حق ہے، آپ نے سہ بارہ فرمایا: اُس نے کہا: امیر المومنین! میں نے آپ کو معاف کیا، (اِزَالَۃُ الْخِفَاء)‘‘۔
’’سیدنا سعید بن مسیب بیان کرتے ہیں: ایک مسلمان اور ایک یہودی سیدنا عمر کے پاس اپنا جھگڑا لے کر آئے، سیدنا عمر نے دیکھا کہ یہودی حق پر ہے، پس آپ نے اُس کے حق میں فیصلہ دے دیا، اُس یہودی نے کہا: اللہ کی قسم! آپ نے حق فیصلہ کیا ہے، سیدنا عمر نے اُسے دُرّہ لگاتے ہوئے فرمایا: تجھے کیسے پتا چلا کہ میں نے حق فیصلہ کیا ہے، اُس نے کہا: ہم نے تورات میں پڑھا ہے کہ جو قاضی حق کے ساتھ فیصلہ دیتا ہے، اُس کے دائیں اور بائیں دو فرشتے ہوتے ہیں، وہ اُس کے لیے توفیق کی دعائیں کرتے ہیں، پس جب وہ حق کو چھوڑتا ہے تو وہ اسے چھوڑ کر آسمان کی طرف اٹھ جاتے ہیں، (موطا امام مالک)‘‘۔
’’جریر بیان کرتے ہیں: ایک مجاہد نے سیدنا ابوموسیٰ اشعری کے لشکر کے ساتھ مالِ غنیمت جمع کیا، اس کو ابوموسیٰ نے اس کا پورا حصہ نہ دیا، اس نے لینے سے انکار کیا اور کہا: میں اپنا پورا حصہ لوں گا، اس پر سیدنا ابوموسیٰ نے اُسے بیس کوڑے مارے اور اس کا سر منڈوایا، اس نے اپنے منڈے ہوئے بال جمع کیے اور ان کولے کر سیدنا عمر کی خدمت میں حاضر ہوا، وہ بال نکال کر سیدنا عمر کے سینے پر پھینکے، سیدنا عمر نے فرمایا: تجھے کیا ہوا ہے، اس نے سارا ماجرا سنایا، سیدنا عمر نے اسی وقت سیدنا ابوموسیٰ اشعری کو خط لکھا:
السلام علیکم! امابعد! فلاں بن فلاں نے مجھے ایسی ایسی خبر دی ہے، میں تمہیں قسم دیتا ہوں اگر تم نے ایسا ہی کیا ہے جو اس نے بیان کیا ہے، سو اگر تم نے لوگوں کے مجمع میں ایسا کیا ہے تو تم بھی لوگوں کے مجمع میں بیٹھو تاکہ وہ تم سے بدلہ لے اور اگر تم نے وہ بات خلوت میں کی ہے تو تم خلوت میںب یٹھو تاکہ وہ تم سے بدلہ لے، جب اس آدمی نے سیدنا ابوموسیٰ کو یہ خط پہنچایا تو اسی وقت بدلہ دینے کے لیے بیٹھ گئے، یہ دیکھ کر اس شخص نے کہا: میں نے اللہ کے لیے آپ کو معاف کردیا، (کنزالعمال)‘‘۔